فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
لیکن پھر ایسا ہوا کہ تم میں سے ان لوگوں نے جن کی راہ ظلم و شرارت کی راہ تھی خدا کی بتلائی ہوئی بات ایک دوسری بات سے بدل ڈالی (اور عجز و عبودیت کی جگہ غفلت و غرور میں مبتلا ہوگئے) نتیجہ یہ نکلا کہ ظلم وشرارت کرنے والوں پر ہم نے آسمان سے عذاب نازل کیا اور یہ ان کی نافرمانیوں کی سزا تھی
[٧٥] بنی اسرائیل کا فتح کے وقت تکبر :۔ مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر اس کے بالکل الٹ کام کیے۔ بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ ریز ہونے کے بجائے اکڑتے ہوئے اور سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، اور توبہ و استغفار کرنے کے بجائے دنیوی مال و دولت کے پیچھے پڑگئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھک کر داخل ہونا اور زبان سے (حطۃ) (یعنی گناہوں کی بخشش مانگنا) لیکن وہ اپنی سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے حَبَّۃٌ فی شعرۃ (دانہ بالی کے اندر) کہنے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور مسلم میں حبۃ فی شعرۃ کے بجائے حنطۃ فی شعرۃ (گندم اپنی بالی کے اندر) کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب التفسیر) طاعون کا عذاب :۔ بنی اسرائیل جب شہر پر قابض ہوئے وہاں بدکاریاں شروع کردیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ آسمان سے عذاب (طاعون کی وبا کی صورت میں) نازل فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار یہود مر گئے۔