فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
(اس دن) ایسا ہوگا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک کام کیے ہیں، تو ان کی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ انہیں دے دے گا، اور اپنے فضل سے اس میں زیادتی بھی فرمائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے (خدا کی) بندگی کو ننگ و عار سمجھا اور گھمنڈ کیا تو انہیں (پاداش جرم میں) ایسا عذاب دے گا جو دردناک عذاب ہوگا اور اس دن انہیں خدا کے سوا نہ تو کوئی رفیق ملے گا نہ مددگار
[٢٣٠] تکبر کا انجام :۔ تکبر اور بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو لائق ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی اللہ کے سامنے اکڑے گا، تو یقیناً دوزخ میں جائے گا۔ عہد آدم علیہ السلام میں سب سے پہلے ابلیس نے تکبر کیا تو راندہ بارگاہ الہی قرار پایا۔ جس شخص میں بھی کبر و نخوت ہو لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ اللہ اسے دنیا میں بھی ذلیل کرتا ہے اور آخرت میں بھی ذلیل کر کے اس کی اکڑ توڑ دے گا اور جہنم میں داخل کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ کا جھگڑا ہوا۔ جنت نے کہا ’’پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے۔‘‘ اور دوزخ کہنے لگی ’’کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو متکبر تھے۔‘‘ اللہ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ إن رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) ـــــــ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے۔ اور دوزخی ہر موٹا، اجڈ اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ واقسموا باللہ جہد ایمانہم)