وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور پھر (کیا اس وقت کی یاد بھی تمہارے اندر عبرت پیدا نہیں کرسکتی) جب (ایک شہر کی آبادی تمہارے سامنے تھی اور) ہم نے حکم دیا تھا کہ اس آبادی میں (فتح مندانہ) داخل ہوجاؤ اور پھر کھاؤ پیو، آرام چین کی زندگی بسر کرو، لیکن جب شہر کے دروازے میں قدم رکھو، تو تمہارے سر اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر توبہ واستغفار کا کلمہ جاری ہو کہ حطۃ! حطۃ! (خدایا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے پاک کردے ! اگر تم نے ایسا کیا، تو) اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا، اور (اس کا قانون یہی ہے کہ) نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دیتا ہے اور ان کے اجر میں فراوانی ہوتی رہتی ہے
[٧٤] پھر جب یہ تربیت کا عرصہ گزر گیا اور انہوں نے ایک بستی کو فتح کرلیا تو ہم نے انہیں ہدایت کی کہ اس شہر میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور منکسرانہ انداز سے داخل ہونا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کرنا (یعنی بدنی اور قولی دونوں طرح کی عبادت کرنا اور (حِطَّۃٌ) کا ایک یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں پر تم فتح پاؤ، ان میں قتل و غارت نہ شروع کرنا بلکہ انہیں معاف کردینا (جیساکہ فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کچھ کیا تھا) تاکہ ہم تمہاری خطائیں معاف کر کے تمہیں انعامات سے نوازیں۔