إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
(اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح پر اور ان نبیوں پر جو نوح کے بعد ہوئے، بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم، اسمعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر بھیجی، اور داود کو زبور عطا فرمائی
[٢١٦] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے کا طریق کار وہی تھا جو دوسرے انبیاء کے لیے تھا۔ اور یہ طریق کار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے سنئے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے جو وحی آپ پر شروع ہوئی وہ پاکیزہ خواب تھے۔ سوتے میں آپ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح واضح ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی پسند آنے لگی اور آپ غار حرا میں اکیلے رہنے لگے مسلسل کئی راتیں وہاں رہ کر عبادت کرتے۔ پھر جب توشہ ختم ہوجاتا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور اتنا توشہ اور لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حال میں غار حرا میں تھے کہ آپ کے پاس فرشتہ آیا۔ جس نے کہا ''اقرأ '' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نے ک’’میں پڑھا لکھا نہیں۔۔ ‘‘(آگے تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ علق) ٢۔ وحی کے مختلف طریقے :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار۔ اور یہ وحی مجھ پر سخت ناگوار ہوتی ہے پھر جب فرشتے کی کہی ہوئی بات مجھے یاد رہ جاتی ہے تو یہ موقوف ہوجاتی ہے اور کبھی فرشتہ مرد کی صورت میں میرے پاس آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے تو میں اس کی کہی ہوئی بات یاد کرلیتا ہوں۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جب سخت سردی کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی، پھر جب موقوف ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ نکلتا۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کے مضامین وہی کچھ ہیں جو سابقہ انبیاء کو وحی کیے جاتے رہے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص آج بھی تورات اور انجیل کا بنظر غائر مطالعہ کرے جن میں تحریف بھی ہوچکی ہے اور بہت سے الحاقی مضامین بھی ان میں شامل ہوچکے ہیں۔ تاہم بے شمار مقامات ایسے بھی آ جاتے ہیں جن سے ایک عالم شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام کتب سماویہ کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ [٢١٧] یہود زبور کو وحی الہٰی تسلیم کرتے ہیں حالانکہ وہ الواح تورات کی طرح یکبارگی نازل نہیں ہوئی تھی۔ یہاں یہود کے لیے زبور کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا ہے کہ تم اگر یکبارگی نازل ہونے کے باوجود اسے وحی الہی مانتے ہو تو آخر قرآن کو وحی الہی ماننے سے کیا چیز مانع ہے۔ یہ دراصل یہود کے مذکورہ مطالبہ کا ہی جواب ہے۔