لَّٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا
لیکن (اے پیغمبر) ان میں سے جو لوگ (کتاب اللہ کے) علم میں پکے ہیں، تو وہ اور مسلمان (ان گمراہیوں سے اپنی راہ الگ رکھتے ہیں۔ وہ) اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی ہے اور ان تمام کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور وہ جو نماز قائم کرنے والا ہیں، زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، تو ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ہم عنقریب ان کا اجر عطا فرمائیں گے۔ ایسا اجر جو بہت ہی بڑا اجر ہوگا
[٢١٣] علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو منزل من اللہ وحی کے متلاشی ہوں اور وہیں سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں۔ لکیر کے فقیر نہ ہوں۔ نہ تقلید آباء کے پابند ہوں اور نہ ایسے رسم و رواج کے جو دین میں راہ پا کر اس کا حصہ بن گئے ہوں جیسے بدعات وغیرہ۔ جیسے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سلام اور ان کے ساتھی تھے۔ [٢١٤] دوہرا اجر پانے والے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اہل کتاب میں سے جو شخص (خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی) اسلام لائے اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کا اور دوسرا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اہل الکتابین) [٢١٥] اس آیت پر آ کر یہود کے اس مطالبہ کے جواب ختم ہو رہے ہیں جو انہوں نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر قرآن ایسے یکبارگی آسمان سے اترے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی الواح نازل ہوئی تھیں، تو تب ہی ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ درمیان میں یہود کے تورات پر ایمان لانے کی کیفیت، ان کی بدکرداریاں اور عہد شکنیاں ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل علم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب پر پوری طرح ایمان لاتے ہیں پھر اس کے احکام کی پوری طرح پابندی کرتے ہیں۔ حیلے بہانے، اعتراضات، مطالبات اور کٹ حجتی نہیں کرتے۔ ایسے ہی لوگ اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔