يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٰلِكَ ۚ وَآتَيْنَا مُوسَىٰ سُلْطَانًا مُّبِينًا
(اے پیغمبر) اہل کتاب (یعنی یہودی) تم سے درخواست کرتے ہیں کہ آسمان سے کوئی کتاب ان پر نازل کرا دو (تاکہ انہیں تصدیق ہوجائے) کہ تم خدا کے نبی ہو) تو (یہ فرمائش انہوں نے تم ہی سے نہیں کیا ہے) یہ اس سے بھی بڑی بات کا سوال موسیٰ سے کرچکے ہیں انہوں نے (یعنی ان کے بزرگوں اور ہم مشربوں نے سینا کے میدان میں) کہا تھا۔ ہمیں خدا آشکارا طور پر دکھلا دو۔ (یعنی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں خدا تم سے کلام کر رہا ہے) تو ان کی شرارت کی وجہ سے بجلی (کی ہولناکی) نے انہیں پکڑ لیا تھا (اور اس پر بھی وہ نافرمانی و شرارت سے باز نہیں آئے تھے) پھر باوجودیکہ (دین حق کی روشن دلیلیں ان پر واضح ہوچکی تھیں، وہ پوجا کے لیے) بچھڑے کو لے بیٹھے (اور بت پرستی میں مبتلا ہوگئے) ہم نے اس سے بھی درگزر کی تھی اور موسیٰ کو (قیام حق و شریعت میں) ظاہر و واضح اقتدار دے دیا تھا۔
[٢٠٢] یہود کا ایمان لانے کے لئے نوشتہ کا مطالبہ :۔ مثل مشہور ہے ''خوئے بدرابہانہ بسیار'' اسی مثل کے مصداق یہود مدینہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب آپ پر آسمان سے نازل ہو تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے جیسا کہ موسیٰ پر تورات کی تختیاں نازل ہوئی تھیں۔ ان کے اس مطالبہ کے اللہ نے مختلف مقامات پر کئی طرح سے جواب دیئے ہیں۔ الزامی بھی اور تحقیقی بھی۔ الزامی جواب یہ ہے کہ سوال کرنا اور سوال کرتے جانا یہود کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ان پر آسمان سے تورات لکھی لکھائی نازل ہوئی تھی تو کیا یہ اس پر ایمان لے آئے تھے؟ مطالبہ دیدار الہٰی :۔ انہوں نے تو اس سے بھی بڑا مطالبہ پیش کردیا تھا جو یہ تھا کہ ہم جب تک اللہ کو نہ دیکھ لیں اور وہ بھی یہ کہے کہ واقعی یہ کتاب تورات میں نے ہی نازل کی ہے۔ اس وقت تک اے موسیٰ ہم تمہارا کیسے اعتبار کریں۔ اگرچہ ان کا ہر مطالبہ انتہائی سرکشی پر مبنی تھا۔ تاہم موسیٰ علیہ السلام انہیں کوہ طور کے دامن میں لے گئے۔ بھلا اللہ تعالیٰ کی جس تجلی کو خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی نہ سہار سکے تھے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے تھے یہ لوگ بھلا کیسے سہار سکتے تھے؟ چنانچہ جب بجلی کی صورت میں تجلیات ان پر پڑیں، تو سب کے سب مر گئے۔ پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے زندہ ہوئے اور یہ واقعہ تفصیل سے سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ لہٰذا اب پھر اگر ان کی خواہش کے مطابق اتارا جائے تو یہ لوگ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرچکے ہیں۔ [٢٠٣] معجزات موسیٰ:۔ یہ واضح دلائل یہ تھے۔ عصائے موسیٰ، ید بیضاء آل فرعون پر چچڑیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا عذاب، جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور کردیا جاتا مگر پھر بھی وہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ جادوگروں کے مقابلہ میں سیدنا موسیٰ کی نمایاں کامیابی اور جادوگروں کا ایمان لانا، دریا کا پھٹنا اور اس میں فرعون اور آل فرعون کا غرق ہونا، اور بنی اسرائیل کا فرعونیوں سے نجات پانا وغیرہ۔ غرض ایسے دلائل یا معجزات بے شمار تھے۔ انہیں دیکھ کر بھی جو لوگ کماحقہ، ایمان نہ لائے تھے۔ اگر آپ پر کتاب اتار بھی دی جائے تو کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ [٢٠٤] گؤسالہ پرستی :۔ تم اس قدر ظالم لوگ تھے کہ تم نے یہ نہ سمجھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہوتا رہا بلکہ تم میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ ہماری یہ نجات گؤ سالہ پرستی کی وجہ سے ہوئی ہے لہٰذا تم نے پھر سے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ اور جب کسی بچھڑے کا نصب شدہ بت نہ ملا تو تم نے خود ہی بچھڑے کا بت بنا کر اس کی پوجا شروع کردی۔ یہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔