إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا
تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو، یا چھپا کر کرو، یا کسی کی برائی سے درگزر کرو (ہر حال میں تمہارے لیے نیکی و احسان کا اجر ہے، اور دیکھو) اللہ بھی (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہوا (برائیوں سے) درگزر کرنے والا ہے
[١٩٨] عفو ودرگزر :۔ اس کے برعکس اے مسلمانو! اگر تم کسی زیادتی کا جواب بھلائی سے دو یا ظالم کو بددعا کی بجائے دعا دو یا علانیہ یا خفیہ اس کی بھلائی کی کوئی تدبیر سوچو یا اس کا قصور معاف بھی کر دو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ کیونکہ تمہارا پروردگار ہر طرح کی قدرت رکھنے کے باوجود ظالموں حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کو رزق بھی دیئے جاتا ہے اور انہیں مہلت بھی دیئے جاتا ہے اور ضمناً ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کسی کی برائی بیان کرنا یعنی غیبت گناہ کبیرہ ہے اسی طرح کسی کے عیب پر پردہ ڈالنا یا پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے اب معافی اور پردہ پوشی کے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع) ٢۔ پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری تمام امت کو معاف کردیا جائے گا بجز (گناہ) ظاہر کرنے والوں کے، اور وہ گناہ یہ ہے کہ آدمی رات کو کوئی (برا) کام کرے۔ پھر جب صبح ہو تو اگرچہ اللہ نے اس عمل پر پردہ ڈال دیا تھا، وہ کہے 'اے فلاں! میں نے آج رات یہ اور یہ کام کیا تھا۔ اللہ نے تو اس کے عیب پر پردہ ڈالا تھا مگر اس نے اپنے عیب سے اللہ کے پردہ کو کھول دیا۔‘‘ (مسلم، کتاب الزہد، باب النھی عن ہتک الانسان ستر نفسہ۔۔ بخاری کتاب الادب، باب ستر المومن علی نفسہ) ٣۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) تم میں سے کوئی شخص اپنے پروردگار سے اتنا قریب ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا بازو رکھ دے گا۔ پھر فرمائے گا، تم نے فلاں فلاں کام کیے تھے۔ وہ کہے گا 'ہاں۔' پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے 'تم نے فلاں اور فلاں کام بھی کیا تھا ؟' وہ کہے گا 'ہاں' گویا وہ ہر جرم کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا 'میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈال دیا تھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں۔' (بخاری، کتاب الادب باب ستر المومن علی نفسہ نیز کتاب المظالم، باب قول اللہ تعالیٰ الالعنۃ اللہ علی الظالمین) ٥ سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا شخص اور اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی :۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر جنت میں داخل ہوگا اور سب سے بعد دوزخ سے نکلے گا۔ وہ شخص قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اس کے ہلکے گناہ پیش کرو، بھاری نہ کرو۔ چنانچہ اس کے ہلکے گناہ پیش کر کے اسے کہاں جائے گا۔ کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیے تھے۔ وہ کہے گا ہاں اور انکار نہ کرسکے گا اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا کہ کہیں وہ پیش نہ کردیئے جائیں۔ اس کے لیے حکم ہوگا کہ تیری ہر برائی کے عوض تجھے ایک نیکی دی جاتی ہے۔ یہ سن کر وہ کہے گا اے میرے پروردگار! میں نے تو کچھ اور بھی کام کیے تھے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار) ان احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ زندگی کے عیوب، جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا تھا لوگوں کی سامنے ظاہر کرے اور نہ ہی توبہ اس بات کی مقتضی ہے کہ کسی کے سامنے اپنا کچا چٹھہ کھولے۔ جیسا کہ عیسائیوں میں یہ دستور ہے کہ توبہ کے وقت پادری کے سامنے گزشتہ عیوب کا اظہار و اقرار کرایا جاتا ہے۔