لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
خدا کو پسند نہیں کہ تم (کسی کی) برائی پکارتے پھرو۔ ہاں یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو (اور وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرے) اور (یاد رکھو) خدا سننے والا جاننے والا ہے (اس سے کسی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں
[١٩٧] مظلوم کس کس سے شکوہ کرسکتا ہے؟ یعنی مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور ظالم کے لیے بددعا کرے یا حاکم کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کر کے اس سے استغاثہ چاہے یا دوسرے لوگوں سے بیان کرے تاکہ وہ اس ظالم کا ہاتھ روکیں، یا کم از کم خود ظالم کے اس قسم کے ظلم سے بچ جائیں۔ یا مثلاً اگر کسی نے اسے گالی دی ہے تو وہ بھی ویسی ہی گالی دے دے۔ مگر زیادتی نہ کرے۔ اور ظالم کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا منافق، یہودی ہو یا کافر ہو۔ مظلوم کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے کی بری بات لوگوں سے بیان کرتا پھرے اور اسی کا نام غیبت یا گلہ ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ جس کا مقصد محض کسی شخص کو دوسروں کی نظروں میں ذلیل بنانا ہوتا ہے اور جس شخص کی غیبت کی جائے اس کو جب معلوم ہو تو اس کے جذبات کا بھڑک اٹھنا ایک فطری بات ہے۔ مکہ میں مسلمانوں پر مظالم کی نوعیت اور تھی اور مدینہ میں اور تھی۔ مدینہ میں یہود اور منافقین مسلسل مسلمانوں کو دکھ پہنچاتے رہتے تھے، کبھی استہزاء سے، کبھی سازشوں اور مکر و فریب کی چالوں سے کبھی کج بحثیوں اور بیجا قسم کے اعتراضات اور بیہودہ قسم کی گفتگو سے۔ اور ایسے حالات میں مسلمانوں کے جذبات کا بھڑک اٹھنا معمولی بات تھی۔ ایسے ہی حالات میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے تاکہ کوئی بھی بات بتنگڑ بن کر کسی بڑے فتنہ کا باعث نہ بن جائے لہٰذا وہ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں۔