يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ مسلمانوں کے سوا کافروں کو (جو تمہارے خلاف لڑ رہے ہیں اور تمہاری بربادی پر تلے ہوئے ہیں) اپنا رفیق و مددگار بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو خدا کا صریح الزام اپنے اوپر لے لو۔
[١٩٢] منافقوں سے دوستی کی ممانعت :۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں غیر مسلموں اور منافقوں سے دوستی گانٹھنے سے منع فرمایا ہے پھر اگر تم اللہ کے حکم کے علی الرغم یہی کام کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے حضور تم خود ہی اپنے آپ کو سزا کے مستحق قرار دے رہے ہو۔ یہ حکم نہایت جامع قسم کا ہے جس کا تعلق افراد سے بھی ہے اور حکومت سے بھی۔ اس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔ یعنی جس طرح ایک شخص کو کسی غیر مسلم یا منافق سے دوستی لگانے میں نقصان ہی کا احتمال ہے، اسی طرح اگر کوئی اسلامی یا مسلمان حکومت بھی غیر مسلموں سے دوستی کے روابط قائم کرے گی تو نقصان ہی اٹھائے گی۔ اور اس کا تجربہ بارہا ہو بھی چکا ہے اور بسا اوقات منافقوں اور غداروں نے ہی جو حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز تھے، مسلمانوں کی حکومتوں کو ڈبویا ہے۔