وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابر کی ہوئی۔
[٥] کفو کا لغوی مفہوم :۔ کُفُوًا : کفاء کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اس جیسے دوسرے ٹکڑے سے ملا کر خیمہ کی پچھلی طرف ڈال دیا جاتا ہے اور کفو اور کُفٰی بمعنی ہم پایہ، ہم پلہ، مرتبہ و منزلت میں ایک دوسرے کے برابر ہونا۔ اس کے مقابلہ اور جوڑ یا ٹکر کا ہونا۔ کفو کا لفظ عموماً میدان جنگ میں دعوت مبارزت کے وقت یا نکاح اور رشتہ کے وقت بولا جاتا ہے۔ فلان کفولفلان یعنی فلاں شخص فلاں کے جوڑ کا یا مدمقابل یا ہمسر ہے۔ رشتہ کے وقت بھی فریقین یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے فریق کی معاشی، معاشرتی اور تمدنی حالت اس جیسی ہے یا نہیں؟ بس یہی کفو کا مفہوم ہے۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی ذات کے متعلق طرح طرح کے سوال کرتے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ اس کائنات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کے جوڑ کی ہو اور تمہیں سمجھایا جاسکے کہ اللہ فلاں چیز کی مانند ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ ﴾ سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے :۔ واضح رہے کہ چونکہ اس سورت میں توحید کے جملہ پہلوؤں پر مکمل روشنی ڈال دی گئی ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سورت کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے اور یہ چیز بیشمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں بنیادی طور پر تین عقائد پر ہی زور دیا گیا ہے۔ اور وہ ہیں توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں توحید کا چونکہ جامع بیان ہے اس لیے اسے قرآن کی تہائی کے برابر قرار دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا ابو الدرداء سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا تم ہر رات کو ایک تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ نے عرض کیا : کوئی شخص تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ ’’تہائی قرآن کے برابر ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ جمع ہوجاؤ تاکہ میں تمہارے سامنے قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں ہم جمع ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے۔ اور سورت ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ﴾ پڑھی۔ پھر اندر چلے گئے۔ ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شاید آسمان سے کوئی خبر آئی ہے جس کے لیے آپ اندر چلے گئے۔ پھر آپ باہر نکلے تو فرمایا : ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے سامنے تہائی قرآن پڑھوں گا۔ سو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار مقرر کرکے بھیجا۔ وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قراءت کو ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ﴾ پر ختم کرتے تھے۔ جب فوج لوٹ کر آئی تو لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ رحمٰن کی صفت ہے اور میں اسے دوست رکھتا ہوں کہ اسے پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کہ اسے کہہ دو کہ اللہ تمہیں دوست رکھتا ہے‘‘ (حوالہ ایضاً)