أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
اے پیغمبر) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا (١)۔
[١] یمن میں ابرہہ کا عالی شان گرجا تعمیر کرنا :۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔ تاہم اس کے مخاطب تمام اہل عرب ہیں۔ قرآن میں ان ہاتھی والوں کی کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ یہ لوگ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کس غرض سے آئے تھے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ بالکل قریبی زمانہ میں پیش آیا تھا اور عرب کا بچہ بچہ اس کی تفصیلات سے واقف تھا اور بہت سے شعراء نے اس واقعہ کو اپنے اپنے قصائد اور منظوم کلام میں قلمبند کردیا تھا۔ واقعہ مختصراً یہ تھا کہ یمن میں اہل حبشہ کی عیسائی حکومت قائم تھی اور ابرہہ نامی ایک شخص حکومت حبشہ کا نائب السلطنت مقرر تھا۔ وہ بیت اللہ کے اثر و رسوخ اور عزت و عظمت سے بہت حسد کرتا تھا۔ وہ چاہتا یہ تھا کہ عرب بھر میں یمن کے دارالخلافہ صنعاء کو وہی حیثیت حاصل ہوجائے جو مکہ کو حاصل ہے۔ اور قریش مکہ کعبہ کی وجہ سے جو سیاسی، تمدنی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں وہ ہماری حکومت کو حاصل ہونا چاہئیں۔ اسی غرض سے اس نے صنعاء میں ایک عالی شان کلیسا تعمیر کرایا۔ کعبہ پر حملہ کا ارادہ :۔ کلیسا کی عمارت کعبہ کے مقابلہ میں بڑی پر شکوہ اور عالی شان تھی۔ اس کے باوجود لوگ ادھر متوجہ نہ ہوئے۔ بلکہ جب عرب قبائل کو اس کلیسا کی تعمیر کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو کسی نے خفیہ طور پر اس کلیسا میں پاخانہ کردیا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق کسی نے اسے آگ لگا دی۔ جس سے ابرہہ کو کعبہ پر چڑھائی کرنے اور اسے تباہ و برباد کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ اور یہ ممکن ہے کہ اس نے خود ہی کعبہ پر چڑھائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پیدا کرنے کے لیے خود ہی اس کلیسا کو آگ لگوائی ہو یا اس کی بے حرمتی کروائی ہو۔ بہرحال ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کے لیے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا۔ اس لشکر میں تیرہ ہاتھی بھی تھے اور وہ خود بھی ایک اعلیٰ درجہ کے محمود نامی ہاتھی پر سوار تھا۔ یہ لشکر مکہ کی طرف روانہ ہوا تو راستہ میں اکثر عرب قبائل مزاحم ہوئے لیکن ابرہہ کے اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں ان کی کیا حیثیت تھی۔ وہ شکست کھاتے اور گرفتار ہوتے گئے۔ بالآخر ابرہہ منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک مقام محسر تک پہنچ گیا۔ اس نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ کچھ لوٹ مار بھی کی۔ عبدالمطلب جو ان دنوں کعبہ کے متولی اعظم اور قریشیوں کے سردار تھے، کے دو سو اونٹ بھی اپنے قبضہ میں کرلیے۔ پھر اہل مکہ کو پیغام بھیجا کہ میں صرف کعبے کو ڈھانے آیا ہوں۔ آپ لوگوں سے لڑنے نہیں آیا۔ لہٰذا اگر تم لوگ تعرض نہ کرو گے تو تمہارے جان و مال محفوظ رہیں گے اور میں اس سلسلہ میں گفت وشنید کے لیے تیار ہوں۔ ابرہہ اور عبدالمطلب کا مکالمہ :۔ اس پیغام پر عبدالمطلب اس سے گفتگو کرنے کے لیے اس کے ہاں چلے گئے۔ قریش مکہ کو اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ وہ کسی طرح بھی ابرہہ کے لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتے۔ لہٰذا عبدالمطلب نے روانگی سے قبل ہی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں اور اپنے اموال سمیت پہاڑوں میں چھپ جائیں۔ پھر ان لوگوں نے کعبہ میں جاکر خالصتاً اللہ تعالیٰ سے نہایت خلوص نیت کے ساتھ دعائیں کی تھیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے۔ کیونکہ ہم میں اتنی سکت نہیں۔ اس وقت بھی کعبہ میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے مگر اس آڑے وقت میں وہ اپنے سب معبودوں کو بھول گئے اور اکیلے اللہ سے دعائیں کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیں۔ جب عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجاہت سے بہت متاثر ہوا اور خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ عبدالمطلب نے بڑی سادگی سے جواب دیا :''اپنے اونٹوں کی واپسی'' اس جواب پر ابرہہ سخت حیران ہوا جیسے آپ کی قدر و منزلت اس کی نظروں سے گر گئی ہو، پھر کہنے لگا : میرا تو خیال تھا کہ آپ کعبہ کے متعلق کوئی بات کرینگے؟ عبدالمطلب نے پھر سادگی سے جواب دیا کہ : اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لیے ان کا مطالبہ کردیا۔ کعبہ کا مالک میں نہیں۔ اس کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ آپ جانیں اور وہ جانے۔ اس جواب پر وہ اور بھی حیران ہوا تاہم اس نے عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردیے۔ عبدالمطلب واپس چلے آئے اور آکر لوگوں کو پھر اپنی حفاظت کی تاکید کردی۔ اور ابرہہ نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کی تیاری شروع کردی۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہوا کہ اس کے اپنے ہاتھی محمود نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کرنے سے انکار کردیا۔ اسے بہتیرے تیر لگائے گئے اور آنکس مارے گئے مگر وہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا تھا اور جب اس کا رخ کعبہ کے علاوہ کسی دوسری طرف کیا جاتا تو فوراً دوڑنے لگتا تھا۔ یہ لوگ اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ یا بالفاظ دیگر اپنے لشکر بھیج دیے۔ ابابیلوں کی کنکر باری :۔ ان پرندوں میں سے ہر ایک کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور دو کنکر دونوں پنچوں میں تھے۔ ان پرندوں نے وہی کنکر اس لشکر پر پھینک کر کنکروں کی بارش کردی۔ یہ کنکر ایسی تیزی سے لگتے تھے جیسے بندوق کی گولی لگتی ہو۔ جہاں کنکر لگتا زخم ڈال دیتا تھا اور کبھی آر پار بھی گزر جاتا تھا۔ چنانچہ اس لشکر کے بیشتر افراد تو وہیں مر گئے۔ باقی جو بچے وہ واپس مڑے لیکن وہ راستہ میں مرگئے۔ ابرہہ خود بھی راستے میں ہی مرا تھا۔ اور اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے صرف ٥٠ دن پہلے محرم میں پیش آیا تھا۔