وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا
اور اگر (میاں بی بی میں اصلاح کی کوئی صورت بن نہ پڑے اور ایک دوسرے سے) جدا ہوجائیں، تو اللہ اپنے (فضل کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجائے گا جو عجب نہیں، پہلے کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجاجائے گا جو عجب نہیں، پہلے سے بہتر ہو) اور اللہ بڑی وسعت والا اور اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے
[١٧٣] اور اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔ اور یہ بات کئی بار تجربہ میں آ چکی ہے کہ جن دو میاں بیوی کا آپس میں نباہ ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نالاں اور ایک دوسرے پر الزام دھرتے تھے جب دونوں الگ ہوگئے تو ان دونوں کو اللہ نے اپنے اپنے گھروں میں سکھ چین سے آباد کردیا اور پھر زندگی بھر ان نئے جوڑوں میں موافقت و موانست کی فضا برقرار رہی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات میاں اور بیوی دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں دوسرے کے متعلق ایسی بدظنیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر سیدھی بات سے بھی غلط نتیجہ ہی اخذ کرتے ہیں۔ پھر جب انہیں نیا ماحول میسر آ جاتا ہے جس میں ذہن ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوتے ہیں تو ایسی کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی اور ان دونوں کی خوش باش زندگی کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔