وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔
[١٧١] کسی ایک بیوی کی طرف میلان طبع کی وجوہ :۔ وہ اس لیے کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے، دوسری بوڑھی ہے، ایک خوبصورت ہے دوسری قبول صورت یا بدصورت ہے، ایک کنواری ہے دوسری شوہر دیدہ ہے، ایک خوش مزاج ہے دوسری تلخ مزاج ہے ایک ذہین و فطین ہے تو دوسری غبی اور کند ذہن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایسی صفات ہیں جن میں اگرچہ عورت کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں تاہم یہ خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان طبع کا باعث ضرور بن جاتی ہیں اور یہ فطری امر ہے۔ اس قسم کے میلان و عدم میلان پر انسان کا چونکہ اپنا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا لہٰذا ایسے امور پر اللہ کی طرف سے گرفت اور مواخذہ نہیں۔ مواخذہ تو صرف ان باتوں پر ہوگا جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوں مثلاً نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھنا عورتوں کی باری مقرر کرنا وغیرہ۔ اب جو باتیں انسان کے بس میں نہیں ان کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کما حقہ عدل نہ کرسکو گے۔ [١٧٢] بیویوں کے درمیان عدل کی حقیقت :۔ یعنی جن باتوں میں انسان انصاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے ان کا ضرور لحاظ رکھا کرو۔ اس سے خودبخود ہی یہ نتیجہ پیدا ہوجائے گا کہ نہ تو تم ایک ہی بیوی کی طرف پوری طرح جھکو گے اور نہ کسی دوسری سے بالکل بے تعلق رہ سکو گے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف میلان رکھے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔‘‘ (دارمی، کتاب النکاح، باب فی العدل بین النسائ) ٢۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنا باری کا دن (اور ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردیا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دو دن رہا کرتے، ایک ان کا اپنا باری کا دن اور ایک سودہ رضی اللہ عنہا کا دن۔ (بخاری، کتاب النکاح باب المراۃ تھب یومھا من زوجہا لضرتھا و کیف یقسم ذلک) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا یہ دستور تھا کہ عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں کے ہاں جایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب دخول الرجل علی نسائہٖ فی الیوم) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب (مرض الموت میں) بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی بیویوں سے اجازت لی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے تو تمام بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی۔ (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامرأتِہٖ والمراۃ لزوجھا) ٥۔ نظریہ زوجگی کا رد :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ سنت ہے کہ جب کسی کنواری سے نکاح کرے تو اس کے ہاں سات دن رہے پھر باری مقرر کرے۔ اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے ہاں تین دن رہے پھر باری مقرر کرے۔ (بخاری کتاب النکاح، باب اذاتزوج البکر علی الثیب و باب اذاتزوج الثیب علی البکر) بعض مسلمان جو تہذیب مغرب سے مرعوب ہیں اور یک زوجگی کے قائل ہیں، یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایک طرف تو تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے لیکن دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر عملاً اس اجازت کو منسوخ کردیتا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کو ناممکن صرف ان امور میں کہا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہیں اور ان پر مواخذہ بھی نہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ اور دوسرا جواب اسی آیت کے اندر موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ ’’لہٰذا ایک ہی بیوی کی طرف نہ جھک جاؤ۔‘‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ اس طرح ان کے شبہ یا اعتراض کی مکمل تردید ہوجاتی ہے۔