وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے سرکشی یا کنارہ کشی کا اندیشہ ہو تو شوہر اور بیوی پر کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر (مصالحت کی کوئی بات آپس میں ٹھہرا کر) صلح کرلیں۔ (نا اتفاق سے) صلح (ہر حال میں) بہتر ہے۔ اور (یاد رکھو انسان کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) مال کا لالچ سبھی میں ہوتا ہے (عورت چاہتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ ملے۔ مرد چاہتا ہے کم سے کم خرچ کرے۔ پس ایسا نہ کرو کہ مال کی وجہ سے آپس میں مصالحت نہ ہو) اور اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور (سخت گیری سے بچو تو تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس کی خبر رکھنے والا ہے
[١٦٧] اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کا مطلب یہ بیان فرماتی ہیں کہ مثلاً ایک شخص کے پاس عورت ہو جس سے وہ کوئی میل جول نہ رکھتا ہو اور اسے چھوڑ دینا چاہے اور عورت کہے کہ اچھا میں تجھے اپنی باری یا نان و نفقہ معاف کردیتی ہوں (مگر مجھے طلاق نہ دے) یہ آیت اس باب میں اتری۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں طلاق نہ دے دیں، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’مجھے طلاق نہ دیجیے اپنے پاس ہی رکھیے اور میں اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٦٩] یہاں لالچ سے مراد صرف مال و دولت کا لالچ نہیں بلکہ اس میں تمام مرغوبات نفس شامل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اگر عورت اپنے خاوند کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھے گی تو یقیناً مرد کا دل بھی نرم ہوجائے گا اور صلح کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ [١٧٠] یعنی اگر تم بغیر کسی لالچ کے محض اللہ سے ڈر کر اپنی بیوی سے بہتر سلوک کرو اور اسے طلاق نہ دو تو اللہ سے یقیناً تمہیں اس احسان کا بدلہ مل جائے گا۔