وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
اور پھر (بتلاؤ) اس آدمی سے بہتر دین رکھنے والا کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہے، اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی ہے جو (تمام انسانی گروہ بندیوں سے الگ ہو کر) صرف خدا ہی کے لیے ہورہا تھا اور (یہ واقعہ ہے کہ) اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست مخلص بنا لیا تھا
[١٦٤] دین ابراہیم کی صفات :۔ سیدنا ابراہیم کے دین کی قابل ذکر صفات دو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی۔ تقلید آباء کا انکار کیا، بت پرستی اور نجوم پرستی سے ٹکر لی۔ نمرود کی خدائی کا انکار کیا اور چونکہ انہوں نے اپنے وقت کی تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف ایک اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ لہٰذا وہ حنیف کہلائے اور حنیف کا یہی معنیٰ ہے اور دوسری صفت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے تمام تر احکام کے سامنے برضا و رغبت اپنا سر تسلیم خم کردیا تھا۔ یہ نہیں کیا کہ جو بات آسان یا نفس کو مرغوب تھی اسے تو قبول کرلیا اور جو مشکل یا ناپسند تھی اسے چھوڑ دیا، یا اس کی حسب پسند تاویل کر کے اسی کے مطابق عمل کرلیا۔ یہی دو صفات تھیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کو مختلف تجربوں اور آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اپنا دوست بنا لیا تھا ۔ اب جو شخص ملت ابراہیم کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے اسے انہی دو صفات کو کسوٹی بنا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کس حد تک سچا ہے، اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا کوئی اور ہو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دین ہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب دینوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اسی دین کا نام اسلام ہے جو سب انبیاء کا شیوہ رہا ہے۔ اور اس دین کے اہم اجزاء دو ہیں (١) اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا (٢) اچھے اعمال بجا لانا اور ان دو اجزاء کا مفہوم اس قدر وسیع ہے جس میں پوری کی پوری شریعت سما جاتی ہے۔