فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ
تو ہم اسے بتدریج مشکل میں ڈال دیں گے
[٣] ایک نیک بخت اور ایک بدبخت کے اعمال اور نتائج کا تقابل :۔ دوسرے فریق کی صفات اور عادات پہلے فریق سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں یعنی وہ اللہ کی راہ میں ہرگز مال خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر خرچ کرتا ہے تو اپنی ہی ذات پر خرچ کرتا ہے یا ایسے کاموں میں خرچ کرتا ہے جن سے اس کی شہرت یا اس کی فیاضی کا چرچا ہو۔ اپنی زندگی ایسے بسر کرتا ہے جیسے اس کا خالق و مالک اس کے سر پر ہے ہی نہیں اور اگر زبانی اقرار کرتا بھی ہے تو اپنی عملی زندگی میں اس کے احکام سے بالکل بے نیاز رہتا ہے اور ہر بھلائی کی بات کو جھٹلا دیتا ہے (بھلائی کی وضاحت سابقہ حاشیہ میں کی جاچکی ہے) ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ جہنم کا راستہ آسان اور نیکی اور بھلائی کی راہیں بہت مشکل بنا دیتا ہے۔ ان کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔ وہ کسب حرام اور رزق حرام سے ایسے مانوس ہوتے ہیں کہ رزق حلال کی انہیں کوئی راہ نہ پسند آتی ہے اور نہ ان کے لیے آسان ہوتی ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ﴿ وَکَذَّبَ بالْحُسْنٰی ﴾ کا معنی یہ ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا، اللہ اسے اس کا بدلہ دے گا۔ ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہتا ہے : ’’اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کے عوض اور مال دے‘‘ اور دوسرا کہتا ہے : ’’اے اللہ! بخل کرنے والے کے مال کو تلف کردے‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی ) ٣۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے تو ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر جھکا کر چھڑی سے زمین کرید رہے تھے۔ (جیسے کسی گہری سوچ میں ہیں) پھر فرمایا : ’’تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے جنت میں یا دوزخ میں اور یہ بھی لکھا جاچکا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یابدبخت“ اس پر ایک شخص بولا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر ہم اپنی قسمت کے لکھے پر بھروسا کرتے ہوئے عمل کرنا چھوڑ نہ دیں؟ کیونکہ جو نیک بختوں میں لکھا گیا ہے وہ بالآخر نیک بختوں میں شامل ہوگا اور جو بدبخت لکھا گیا ہے وہ بالاخر بدبختوں میں شامل ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں، بلکہ عمل کیے جاؤ) کیونکہ نیک بخت لکھے گئے ہیں انہیں نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اور جو بدبخت لکھے گئے ہیں انہیں ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں (بخاری۔ کتاب التفسیر) رہا کسی شخص کے انجام سے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کام کرے جو اللہ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ دیکھیے۔