سورة النسآء - آیت 101

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر (جنگ کے لیے) تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر نماز (کی تعداد) میں سے کچھ کم کردو۔ بلاشبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کردیں گے)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٨] اس آیت میں اگرچہ سفر کے ساتھ دشمن کے اندیشہ کا بھی ذکر ہے تاہم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہر طرح کے سفر میں نماز قصر کی جا سکتی ہے۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ سفر فی سبیل اللہ ہی ہو بلکہ ہر سفر میں قصر کی جا سکتی ہے رہی یہ بات کہ کتنے فاصلہ کو سفر کہہ سکتے ہیں اس میں بھی اگرچہ اختلافات موجود ہیں۔ تاہم ہمارے لیے یہ امر کافی اطمینان کا باعث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کوئی عورت ایک رات بھی محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب العمرۃ، باب حج النسائ) گویا اتنی مسافت جہاں سے ایک انسان پیدل رات کو اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکتا ہو، وہ سفر ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے دور خلافت میں ایک عورت کے سفر پر محمول کرتے ہوئے اس دور کے ٩ میل کی مسافت کو سفر قرار دیا تھا جو آج کل کے پیمانہ کے لحاظ سے ٢٥ کلومیٹر بنتا ہے۔ یعنی ایک کمزور انسان پیدل ایک دن میں ٢٥ کلومیٹر جانے کا اور اتنا ہی آنے کا کل ٥٠ کلومیٹر مسافت طے نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اتنی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ سفر میں اگر قصر نہ کی جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم قصر کرنا ہی افضل ہے۔ پھر سفر میں دو نمازیں اکٹھی کر کے پڑھنے کا موقع آ جاتا ہے۔ ایسی تفصیلات کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سفر میں قصر جمع اور سفر کی تعیین :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ابتداء سفر و حضر میں نماز دو رکعت فرض کی گئی تھی۔ پھر سفر کی نماز تو اتنی ہی برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کیا گیا۔ (منیٰ میں‘‘) (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یقصر اذا خرج من موضعہ۔۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین) ٢۔ حارث بن وہب فرماتے ہیں کہ منیٰ میں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت (نماز قصر) پڑھائی۔ حالانکہ آپ بالکل امن میں تھے۔ (بخاری، ابو اب تقصیر الصلٰوۃ، باب الصلٰوۃ بمنیٰ) ٣۔ یعلٰی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہیں (کافروں کا) خوف ہو تو نماز میں قصر کرو اور اب تو ہم امن میں ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’اسی بات پر میں نے بھی تعجب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ نے آپ پر کیا لہٰذا اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب القصر) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کر کے تین رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر بعد عشاء کی اقامت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔‘‘ (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر) ٥۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ نے مدینہ میں رہ کر (یعنی بلاسفر) سات رکعتیں مغرب اور عشاء کی اور آٹھ رکعتیں ظہر اور عصر کی (ملا کر) پڑھیں۔ ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے کہا ’’شاید بارش کی رات میں ایسا کیا ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ''شاید'' (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب تاخیر الظہر الی العصر)