يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
مسلمانو ! جب ایسا ہو کہ تم اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) باہر جواؤ تو چہایے کہ (جن لوگوں سے مقابلہ ہو، ان کا حال) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (کہ وہ دشمنوں میں سے ہیں یا دوستوں میں سے ہیں) جو کوئی تمہیں سلام کرے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے) تو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو ( ہم تم سے ضرور لڑیں گے) کیا تم دنیا کے سروسامن زندگی کے طلب گار ہو ( کہ چالتے ہو) جو کوئی بھی ملے اس سے لڑ کر مال غنیمت لوت لیں؟ اگر یہی بات ہے تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سی (جائز غنیمتیں موجود ہیں (تم ظلم و معصیت کی راہ کیوں اختیار کرو) تمہاری حالت بھی تو پہلے ایسی ہی تھی (اور بجز کلمہ اسلام کے اسلام کا اور کوئی ثبوت نہیں رکھتے تھے) پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (کہ تمام باتیں اسلامی زندگی کی حاصل ہوگئیں) پس ضوری ہے کہ (لڑنے سے پہلے) لوگوں کا حال تحقیق کرلیا کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے
[١٢٩] جنگ کے دوران قتل خطا : ابتدائے اسلام میں ''السلام علیکم'' کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور فریقین کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس دور میں عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس، زبان یا کسی دوسری چیز میں نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان سرسری طور پر دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو لیکن کافروں سے لڑائی کے دوران یہ پیچیدگی پیش آ جاتی کہ جس قوم پر مسلمان حملہ آور ہوتے ان میں سے کوئی شخص السلام علیکم یا لا الہ الا اللہ کہنے لگتا جس سے مسلمانوں کو یہ مغالطہ ہوتا کہ وہ حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ محض اپنی جان بچانے کے لیے یہ کلمہ زبان سے ادا کر رہا ہے تو وہ اپنے اسی گمان کی بنا پر اسے قتل کردیتے اور اس کا مال لوٹ لیتے۔ چنانچہ درج ذیل احادیث میں اسی قسم کے دو واقعات کا ذکر ہے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص تھوڑی سی بکریاں لیے ہوئے مسلمانوں کو ملا اور السلام علیکم کہا۔ مسلمانوں نے اسے (بہانہ خور سمجھ کر) مار ڈالا۔ اور اس کی بکریاں لے لیں (اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا) اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ جنگ کے دوران کلمہ اسلام کہنے والے کافر کا قتل جرم عظیم ہے :۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرقات (قبیلہ جہینہ) کی طرف بھیجا۔ ہم نے علی الصبح ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دی۔ اور میں اور ایک انصاری ان کے ایک آدمی سے ملے اور جب ہم نے اس پر قابو پا لیا تو اس نے لا الـٰہ الا اللہ کہا۔ اب انصاری تو اس سے رک گیا مگر میں نے نیزہ چلا دیا حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ جب ہم واپس آئے تو یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا ’’اسامہ! کیا تو نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد اسے قتل کیا ؟‘‘ میں نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے پناہ چاہنے کے لیے یہ کہا تھا‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ’’کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ کئی بار دہراتے رہے حتیٰ کہ میں نے خواہش کی کہ میں آج سے پہلے اسلام ہی نہ لایا ہوتا۔ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب قول اللہ ومن احیاھا) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (بنی ہدبہ کی جنگ میں) کافروں کو مارنا شروع کیا (حالانکہ وہ کہتے جاتے تھے کہ ہم نے دین بدلا ہم نے دین بدلا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ حال سنا تو فرمایا ’’یا اللہ ! میں خالد کے کام سے بیزار ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب اذا قالوا صبانا ولم یحسنوا اسلمنا) اور بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد میں ایسے مقتولوں کی دیت بھی بیت المال سے ادا کردی تھی۔ اور بعض دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ’’کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ محض اپنی جان بچانے کی خاطر لا الہ الا اللہ کہہ رہا ہے۔‘‘ ٤۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بھلا دیکھیے اگر میں کسی کافر سے لڑائی کروں اور وہ مجھ سے لڑائی کرے اور اپنی تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ دے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت میں چلا جائے اور کہنے لگے میں اللہ کے لیے اسلام لایا تو اس کے یہ کہنے کے بعد میں اسے قتل کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اسے مت قتل کر۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد ایسا کہا تھا۔ پھر بھی میں اسے قتل نہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے مت قتل کر اگرچہ تجھے اس سے تکلیف پہنچی۔ ورنہ وہ اس مقام پر آ جائے گا جو تیرے قتل کرنے سے پہلے تیرا مقام تھا (یعنی وہ ظالم تھا اور تم حق پر تھے) اور اگر تو نے کلمہ اسلام کہنے کے بعد اسے قتل کیا تو تم اس کے مقام پر آ جاؤ گے (یعنی تم ظالم اور وہ مظلوم ہوگا) (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم قتل الکافر بعد قول لا الہ الا اللہ ) اس حدیث سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام ظاہر کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ چونکہ ایسا گمان شرعی نقطہ نظر سے غلط ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے واقعہ کی پوری طرح چھان بین کا حکم دیا۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر اپنی جان بچا لے تو قتل کرنے میں اس کا بھی امکان ہے کہ ایک بے گناہ مومن تمہارے ہاتھ سے مارا جائے اور تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔ واضح رہے کہ آیت نمبر ٩٢ میں اللہ تعالیٰ نے کسی مومن کے قتل خطا کے احوال و ظروف کے لحاظ سے تین صورتیں اور ان کے کفارے کا یوں بیان فرمایا : ١۔ مسلمان مقتول مسلمانوں ہی میں موجود ہو۔ اس کا کفارہ مسلمان غلام آزاد کرنا ہے اور دیت بھی۔ غلام نہ ملنے کی صورت میں متواتر دو ماہ کے روزے۔ ٢۔ مسلمان مقتول جو غیر مسلموں میں رہتا ہو۔ اس کا کفارہ صرف مسلمان غلام آزاد کرنا یا متبادل صورت میں روزے رکھنا ہے اس کے وارثوں کو دیت نہیں دی جائے گی اس لیے کہ اس سے اسلام کے دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ ٣۔ اور اگر مسلمان مقتول ایسے غیر مسلموں سے ہو جن کے درمیان معاہدہ امن ہوچکا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہوگا جو نمبر (١) کی صورت میں ہے۔ اب دیکھئے ان تینوں صورتوں میں مسلمان غلام آزاد کرنا لازم قرار دیا گیا ہے وہ اس لیے کہ جس طرح اس نے بے احتیاطی سے ایک مسلمان کو مار ڈالا ہے تو اس کے کفارہ میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوا، کہ مسلمان غلام کو آزاد کردینا گویا ایک مسلمان کو زندہ کردینے کے مترادف ہے کیونکہ غلامی انسان کی صفت ملکیت اور آزادی کو، جسے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور یہی اس کی زندگی کا مقتضٰی ہے، زائل کرتی ہے اور اس کفارہ میں نوع انسان پر احسان بھی ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ قتل کی کل پانچ قسمیں ہیں : ١۔ قتل کی پانچ اقسام :۔ مسلمان کا قتل عمد۔ اس کی اخروی سزا یہاں مذکور ہوئی ہے اور دنیا میں اس کی سزا قصاص ہے یا اس کے متبادل دیت اور مقتول کے وارثوں کی طرف سے معافی وغیرہ جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٨، ١٧٩ کے حواشی نمبر ٢٢٢ تا ٢٢٥ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ٢۔ قتل خطا جبکہ خطا سمجھنے میں ہو جیسے کسی کو کافر سمجھ کر مار ڈالے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ ٣۔ قتل خطا جبکہ خطا فعل میں ہو جیسے گولی یا تیر مارا تو کسی شکار کو تھا اور وہ لگ جائے کسی مسلمان کو جس سے اس کی موت واقع ہوجائے۔ ٤۔ قتل خطا جبکہ خطا اتفاقاً واقع ہوجائے جیسے کوئی آدمی گاڑی کے نیچے آ کر مر جائے۔ ٥۔ قتل شبہ عمد۔ یعنی کسی شخص کی ایسی چیز سے موت واقع ہوجائے جس سے عموماً موت واقع نہ ہوتی ہو جیسے کسی کو مکا یا چھڑی ماری جائے جس سے وہ مر جائے۔ ان پانچ صورتوں میں پہلی صورت کے سوا باقی سب قتل خطا کے ضمن میں آتی ہیں اور ان میں قصاص نہیں دیت ہوتی ہے جو قاتل کے ان رشتہ داروں پر پڑتی ہے جو اس کے نفع و نقصان میں شریک ہوتے اور جنہیں عاقلہ کہتے ہیں اور دیت کی ادائیگی کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے۔ [١٣٠] قتل اور دوسرے جرائم کی تحقیق ضروری ہے خواہ سفر ہو یا حضر :۔ اس آیت میں تحقیق کا حکم سفر کے ساتھ اس لیے متعلق کیا گیا ہے کہ ایسا واقعہ سفر جہاد میں ہوا تھا ورنہ تحقیق کا حکم حضر میں بھی ایسے ہی ہے جیسے سفر میں۔ تحقیق کے بغیر کسی السلام علیکم کہنے والے کو جلدی سے قتل کردینے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ لوٹ کا مال بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سے ایسے مواقع پیش آنے والے ہیں جن سے اموال غنیمت تمہیں بکثرت حاصل ہوں گے لہٰذا لوٹ مار کی ہوس کی بنا پر ایسے کام ہرگز نہ کرو۔ [١٣١] ایک وقت وہ بھی تھا جب تم خود بھی کفار کے تشدد کی وجہ سے اپنے ایمان کو چھپایا کرتے تھے اور اپنا ایمان کسی دوسرے مسلمان پر صرف السلام علیکم کہہ کر ہی ظاہر کیا کرتے تھے اب اگر اللہ کی مہربانی سے تمہیں اسلامی ریاست میسر آ گئی ہے اور تم اسلامی شعائر بجا لانے میں آزاد ہو تو کم از کم تمہیں ایسے لوگوں کا ضرور احساس کرنا چاہیے جو تمہارے والی ہی سابقہ منزل سے گزر رہے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقع پر تحقیق انتہائی ضروری ہے۔