وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور (دیکھو) کسی مسلمان کو سزا وار نہیں کہ کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے، مگر یہ کہ غلطی سے (اور شبہ میں) اس کے ہاتھ سے کوئی قتل ہوجائے۔ اور جس کسی نے ایک مسلمان کو غلطی سے (اور شبہ میں) قتل کردیا ہو تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا خوں بہا دے۔ اگر مقتول کے وارث خون بہا معاف کردیں تو کردے سکتے ہیں۔ اور اگر مقتول اس قوم میں سے ہو جو تمہاری دشمن ہے (یعنی تم سے لڑ رہی ہے) اگر مومن ہو (اور کسی نے یہ سمجھ کر کہ یہ بھی دشمنوں میں سے ہے اسے قتل کردیا ہو) تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے۔ (خوں بہا کا دلانا ضروری نہ ہوگا کیونکہ اس کے وارثوں اور ساتھیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہے)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ صلح ہے (یعنی معاہد ہو) تو چاہیے کہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو خوں بہا بھی دے، اور ایک مسلمان غلام آزاد بھی کرے۔ اور جو کوئی غلام نہ پائے (یعنی اس کا مقدور نہ رکھتا ہو کہ غلام کو مال کے بدلے حاصل کرے اور آزاد کرائے تو اسے چاہیے، لگاتار دو مہینے روزے رکھے۔ اس لیے کہ اللہ کی طرف سے یہ (اس کے گناہ کی) توبہ ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور (اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے
[١٢٧] قتل خطا کی صورتیں اور کفارہ :۔ اس آیت میں قتل خطا کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ قتل خطا کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً تیر یا پتھر مارا تو شکار کو تھا لیکن وہ کسی مسلمان کو لگ گیا اور وہ مر گیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ماری تو کوئی چیز عمداً ہی تھی مگر مارنے والے کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ اس ہلکی سی ضرب سے مر ہی جائے گا۔ تیسری یہ کہ لڑائی وغیرہ کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مار ڈالے۔ جیسا کہ جنگ احد میں شکست کے بعد مسلمانوں نے بدحواسی کے عالم میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا یمان رضی اللہ عنہ کو کافر سمجھ کر مار ڈالا تھا۔ حالانکہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہی رہے کہ یہ تو میرے والد ہیں مگر اس افراتفری کے عالم میں کسی نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی آواز کو سنا ہی نہ تھا۔ اور چوتھی صورت جو آج کل بہت عام ہے، یہ کہ ٹریفک کے حادثہ میں کسی گاڑی کے نیچے آ کر، یا اس کی ضرب سے مارا جائے۔۔ قتل خطا کے احکام یا اس کے کفارہ کی صورتیں یہ ہیں : ١۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک غلام مومن (خواہ مرد ہو یا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا۔ خون بہا یا دیت سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے۔ جو قاتل کے وارث مقتول کے وارثوں کو ادا کریں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ادائیگی دیت کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے اور یہ دیت مقتول کے وارث چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں۔ اور اگر قاتل کو (آزاد کرنے کے لیے) غلام میسر نہ آئے تو وہ متواتر دو ماہ روزے بھی رکھے گا۔ واضح رہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد جنگ احد میں اجتماعی صورت میں کئی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہیں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے علی الاعلان معاف کردیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اہل احد کی خطائیں معاف کردی تھیں لہٰذا وہاں کفارے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ٢۔ اگر مقتول تو مومن ہو مگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو دو ماہ کے متواتر روزے ہیں اور اس کی دیت نہ ہوگی۔ ٣۔ اور اگر مومن مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں۔