وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
اور جب ان لوگوں کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ (فورا) اسے لوگوں میں پھیلانے لگتے ہیں اگر یہ اسے (لوگوں میں پھیلانے کی جگہ) اللہ کے رسول کے سامنے اور ان لوگوں کے سامنے جو ان میں حکم و اختیار والے ہیں پیش کرتے تو جو (علم و نظر والے) بات کی تہ تک پہنچنے والے ہیں، وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے (اور عوام میں تشویش نہ پھیلتی) اور (دیکھو) اگر اللہ کا تم پر فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو (تمہاری کمزوریوں کا یہ حال تھا کہ) معدودے چند آدمیوں کے سوا سب کے سب شیطان کے پیچھے لگ لیے ہوتے
[١١٥] افواہوں کی تخلیق کا حکم :۔ غزوہ احد اور غزوہ خندق کا درمیانی دور مسلمانوں کے لیے ابتلا کا دور تھا جبکہ غزوہ احد میں ایک دفعہ مسلمانوں کی شکست کی وجہ سے یہودیوں، مشرکوں، قریش مکہ اور قبائل عرب، غرض سب اسلام دشمن طاقتوں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے اور مدینہ پر ہر طرف ایک ہنگامی قسم کی فضا چھائی ہوئی تھی اس صورتحال سے اسلام دشمن لوگ خوب فائدہ اٹھاتے اور کبھی تو مسلمانوں کو مرعوب اور دہشت زدہ بنانے کے لیے ایسی افواہیں پھیلا دیتے کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کے خلاف بڑا بھاری لشکر جمع ہوچکا ہے اور عنقریب وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا کہ خطرہ کی بات فی الواقع موجود ہوتی لیکن غلط بیانی اور افواہوں کی بنا پر مسلمانوں کو غافل رکھا جاتا۔ اور یہ بات صرف منافقوں یا یہودیوں تک ہی محدود نہ تھی۔ یا اس کی وجہ محض اسلام دشمنی ہی نہ ہوتی تھی بلکہ بعض لوگ ازراہ دلچسپی ایسی افواہوں کے پھیلانے میں حصہ دار بن جاتے تھے۔ اسی سلسلہ میں مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی افواہوں میں ہرگز حصہ دار نہ بنیں بلکہ اگر کوئی افواہیں سن پائیں تو اسے حکام بالا تک پہنچا دیں تاکہ وہ صورتحال کی تحقیق کرسکیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کی وہی تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے جو اوپر کردی گئی ہے۔ تاہم اس کا حکم عام ہے اور ہر موقعہ پر افواہوں کے بارے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کا شان نزول بالکل الگ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور جب میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر اس کی تحقیق کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ آپ نے طلاق نہیں دی۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الطلاق۔ باب فی الایلاء) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے‘‘ (مسلم، مقدمہ، باب النھی عن الحدیث بکل ماسمع ) [١١٦] یعنی اگر اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی ہدایات وقت پر نہ دیتا تو تم افواہوں کی رو میں بہہ جاتے اور دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے نقصان اٹھاتے۔ ضمناً اس سے یہ معلوم ہوا کہ افواہوں کی تحقیق کیے بغیر انہیں آگے بیان کردینا شیطان کی اطاعت ہے جس سے طرح طرح کے فتنے رونما ہو سکتے ہیں۔