الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ
جس کی نسبت یہ مختلف طرح کی رائیں رکھتے ہیں
[٢] دور نبوی میں عقیدہ آخرت کے متعلق کئی طرح کے اختلاف پائے جاتے تھے۔ کچھ لوگ تو دہریے تھے جو سرے سے اللہ کی ہستی کے ہی قائل نہ تھے۔ ان کے لیے عقیدہ آخرت خارج از بحث تھا۔ مشرکین مکہ اللہ کی ہستی کے تو قائل تھے مگر آخرت کے منکر تھے۔ عیسائی آخرت کے تو قائل تھے مگر ان میں سے اکثریت کا عقیدہ یہ تھا کہ اخروی عذاب و ثواب صرف روح پر وارد ہوگا۔ بدن جو گل سڑ چکا ہے اسے دوبارہ زندہ کرکے نہیں اٹھایا جائے گا اور کچھ لوگ نظریہ لا ادریت کے قائل تھے یعنی وہ شک و شبہ میں مبتلا تھے۔ ان کے خیال میں یہ دونوں صورتیں ممکنات سے تھیں یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ قیامت قائم ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی انسان کا قصہ پاک ہوجائے۔ اور قیامت کا نظریہ محض ایک قیاسی اور وہمی نظریہ ہو۔ ان سب اختلافات کے باوجود یہ لوگ عملاً اور نتیجہ کے لحاظ سے آخرت کے منکر تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے کافر ہی قرار دیا ہے۔