وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
اور (اپنی تاریخ حیات کا) وہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں خاندان فرعون (کی غلامی) سے جنہوں نے تمہیں نہایت سخت عذاب میں ڈال رکھا تھا نجات دی تھی۔ وہ تمہارے لڑکوں کو بے دریغ ذبح کرڈالتے (تاکہ تمہاری نسل نابود ہوجائے) اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے (حکمراں قوم کی لونڈیاں بن کر زندگی بسر کریں اور فی الحقیقت اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے بڑی ہی آزمائش تھی
[٦٨] فرعون کی بنی اسرائیل کو تعذیب کی وجہ :۔ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر اس کے نجومیوں نے یہ دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جو تمہیں اور تمہاری سلطنت کو غارت کر دے گا۔ فرعون نے اس کا حل یہ سوچا کہ اپنی مملکت میں حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بچہ پیدا ہو اسے مار ڈالا جائے اور جو لڑکیاں پیدا ہوں انہیں اپنی لونڈیاں بنا لیا جائے۔ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اس کی یہ تدبیر انتہائی ظالمانہ تھی۔ مگر جو کام اللہ کو منظور تھا وہ ہو کے رہا اور فرعون کے سر پر چڑھ کر ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون کے منہ پر جوت مارا کہ موسیٰ علیہ السلام کی پرورش بھی اس کے گھر میں ہوئی۔ آیت ﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾(۲۱:۱۲)