وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
[٩٩] منعم علیہم کون کون ہیں؟ اس آیت میں چار قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ فضیلت اور درجہ کے لحاظ سے بلند تر مقام رکھتے ہیں (١) انبیاء۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ نبی ہی اپنی امت کا افضل ترین فرد ہوتا ہے جسے اللہ نبوت کے لیے چن لیتا ہے۔ (٢) صدیق سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے ہر معاملہ میں راست باز ہو حق کا ساتھ دینے والا، ہمیشہ سچ بولنے والا، حق کی فوراً گواہی دینے والا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے والا ہو۔ (٣) شہید کا بنیادی معنیٰ گواہ ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جان دینے والے کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پورے طرز عمل سے شہادت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنی جان دے کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے فی الواقع درست سمجھتا تھا۔ (٤) صالح سے مراد ایسا نیک سرشت آدمی ہے جس کے ہر عمل اور ہر حرکت سے اس کی نیکی ظاہر ہوتی ہو اور اپنی پوری زندگی میں نیک رویہ رکھتا ہو۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بسر و چشم اطاعت کرتا ہو، اس آیت میں اسے اخروی زندگی میں مندرجہ بالا چار قسم کے لوگوں کی رفاقت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اور یہ دراصل اس کے اعمال کا بدلہ نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل ہوگا۔ مندرجہ ذیل احادیث اسی مضمون کی تفسیر پیش کرتی ہیں : ١ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کیسے؟ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ دروازے پر ہمیں ایک آدمی ملا اور کہنے لگا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’کیا تو نے قیامت کے لیے کچھ تیاری کر رکھی ہے؟‘‘ وہ کچھ جھینپ سا گیا اور کہنے لگا۔ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نہ کچھ لمبے چوڑے روزے رکھے ہیں نہ نماز ہے اور نہ صدقہ۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ’’(قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب القضاء والفتیا فی الطریق) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر نبی کو اس کے مرض میں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مرض الموت میں سخت دھچکا لگا تو میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ﴿مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ﴾..... تو میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی یہ اختیار ملا (اور آپ نے سفر آخرت کو پسند فرمایا)۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٣۔ سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ (میں آپ کو وضو کروا رہا تھا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہو کر) فرمایا’’مانگ کیا مانگتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کے علاوہ کوئی اور بات بتاؤ‘‘ میں نے کہا ’’میں تو یہی چیز مانگتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اچھا تو پھر کثرت سجود (نماز نوافل وغیرہ) کو اپنے آپ پر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الصلوۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود) کیونکہ سجدہ ہی وہ عبادت ہے جس میں بندے کو اللہ سے نہایت قرب حاصل ہوتا ہے۔