فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔
[٩٧] یہ سابقہ آیات کا تتمہ ہے جس میں ایک مستقل قانون دیا گیا ہے جو صرف مقدمہ کے منافق کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری امت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ جو مسلمان آپ کے ارشاد، حکم یا فیصلہ کو بدل و جان قبول کرلینے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کردینے پر آمادہ نہیں ہوتا وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ اور آپ کے ارشادات، احکام اور فیصلے سب کچھ کتب احادیث میں مذکور ہوچکے ہیں۔ اب جو شخص ان کے مقابلہ میں کسی اور شخص، عالم، پیر یا امام کے قول کو ترجیح دے گا وہ بھی اس حکم میں داخل ہے۔ یہ آیت بھی امت کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے میں ہماری رہنما اور کسوٹی ہے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کتاب و سنت کی موجودگی میں قیاس کرنا حرام ہے۔ اس مضمون کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو اس چیز کے تابع نہ بنا دے جو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘ (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثانی) اور بالخصوص اس آیت کا شان نزول کتب احادیث میں درج ذیل مذکور ہے : اختلافات کے خاتمہ کا واحد حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا جواب :۔ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ (میرے باپ) اور ایک انصاری میں حرہ میں واقع پانی کی نالی پر جھگڑا ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا ’’تم اپنے درختوں کو پانی پلا لو پھر اسے اپنے ہمسایہ کے باغ میں جانے دو۔‘‘ یہ سن کر وہ انصاری کہنے لگا ’’کیوں نہیں آخر زبیر آپ کی پھوپھی کا بیٹا جو ہوا۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا ’’زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اس کے لیے پانی نہ چھوڑو۔‘‘ یعنی جب انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو اس کا پورا حق دلایا۔ جبکہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی مقدمہ میں نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر و کتاب المساقاۃ، باب سکر الانہار۔۔ مسلم، کتاب الفضائل باب وجوب اتباعہ )