أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
یا یہ لوگوں سے اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا فضل (کیوں) عطا فرمایا ہے؟ سو ہم نے تو ابراہیم کے کاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انہیں بڑی سلطنت دی تھی؟ (٣٩)
[٨٥] یہاں دوسرے لوگوں سے مراد مسلمان ہیں جنہیں دن بدن عروج حاصل ہو رہا تھا اور وہ خود دن بدن ذلیل سے ذلیل تر ہو رہے تھے۔ [٨٦] آل ابراہیم سے مراد سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک سب پیغمبر ہیں اور کتاب اللہ کا علم و حکمت انہی انبیاء کے پاس رہا اور بہت بڑی بادشاہی بھی۔ جیسے سیدنا یوسف، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان علیہم السلام وغیرہ سب بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمام اقوام عالم پر ہمیشہ آل ابراہیم ہی کا قائدانہ اقتدار رہا ہے۔ اگرچہ آپ کے زمانہ میں یہ اقتدار یہود سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ تاہم آل ابراہیم ہی میں رہا۔ آل اسحاق سے آل اسماعیل میں آ گیا یعنی جس طرح پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکومت اور عزت اور دنیا کی قیادت عطا فرمائی تھی اب ویسی ہی شان و شوکت، عزت اور حکومت ان سے چھین کر مسلمانوں کو عطا کی جائے گی۔