عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
کہ جیسے لوگ اب ہیں ہم انہیں بدل کرکے ان سے اچھی قوم لائیں اور اس کام میں کسی نے بھی ہم پر سبقت حاصل نہ کی ہوگی
[٢٦] یعنی جو پروردگار اتنے زیادہ مشرقوں اور مغربوں کو وجود میں لاسکتا اور ان پر مکمل کنٹرول رکھ سکتا ہے کہ ان کے زاویوں میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے پائے وہ یہ نہیں کرسکتا کہ تم سے تمہاری یہ چھوٹی چھوٹی سرداریاں، جن پر تم اس قدر پھولے پھرتے ہو، تم سے چھین کر تمہیں ذلیل و رسوا کرکے پیچھے ہٹا دے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان متکبر قریشیوں کو پیچھے ہٹایا اور ان مسلمانوں کو آگے کردیا جن کے ساتھ یہ بیٹھنا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد معاملہ یکسر الٹ گیا۔ مسلمان فتح یاب اور حاکم اور یہ قریشی مقہور و مغلوب ہوگئے اور بعد میں ان کافروں میں سے عزت صرف اسے ملی جس نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی۔