يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اے اہل کتاب ! جو (قرآن) ہم نے اب نازل کیا ہے، جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق بھی کرتا ہے، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم کچھ چہروں کو مٹا کر انہیں گدی جیسا بنا دیں، یا ان پر ایسی پھٹکار ڈال دیں جیسی پھٹکار ہم نے سبت والوں پر ڈالی تھی۔ (٣٤) اور اللہ کا حکم ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے۔
[٧٩] یعنی تمہارے جرائم اتنے شدید ہوچکے ہیں کہ تمہیں وہی سزا دی جانی چاہیے جو اصحاب سبت کو دی گئی تھی۔ یا تو تمہاری شکلیں یوں مسخ کردی جائیں کہ تمہارے چہرے پشتوں کی طرف موڑ دیئے جائیں یا پھر تمہیں بھی بندر بنا دیا جائے۔ لہٰذا ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ کسی ایسی ذلت کے مسلط ہونے سے پہلے ہی ایمان لے آئیں۔ لفظی اعتبار سے تو ﴿فَنَرُدَّھَا عَلٰٓی اَدْبَارِھَآ ﴾کا ظاہری مفہوم وہی ہے جو مذکور ہوا۔ تاہم یہ الفاظ محاورتاً بھی استعمال ہوتے ہیں اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو اقبال اور ترقی ہم نے تمہیں دے رکھی تھی اسے الٹ کر تمہیں قعر مذلت میں دھکیل دیں گے اور جس غلامی اور اسیری کے ایام تم پہلے دیکھ چکے ہو اسی کی طرف لوٹا دیں گے اور عرب سے نکال کر پھر سے تمہیں بے سرو سامانی اور ذلت کی حالت میں ملک شام کی طرف لوٹا دیں گے گویا یہ ایک پیشین گوئی تھی جو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر عہد فاروقی میں حرف بحرف پوری ہوگئی۔ جب یہ لوگ مدینہ سے جلاوطن کیے گئے تھے تو اپنے چولہے چکی تک اپنے سروں پر اٹھائے انہیں وہاں سے نکلنا پڑا۔ اس آیت میں دو طرح کے متبادل عذابوں کا ذکر ہے یعنی یا تو ہم تمہیں پہلی سی خستہ حالی اور غلامی و رسوائی کی حالت میں لوٹا دیں گے یا پھر ایسا عذاب بھیج دیں گے جیسا کہ داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں اصحاب سبت پر آیا تھا اور انہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ چنانچہ ان دونوں میں سے پہلی صورت کا عذاب ہی ان سرکش یہود مدینہ کے مقدر ہوا۔