سورة النسآء - آیت 41

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت ( ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے؟ (٣١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] سابقہ امتوں پر آپ کی گواہی :۔ اس آیت میں میدان حشر کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس وقت ہر امت میں سے ایک گواہ لایا جائے گا جو اس امت کا نبی ہوگا اور وہ یہ گواہی دے گا کہ یا اللہ ! میں نے تیرا پیغام اور تیرے احکام امت کو من و عن پہنچا دیئے تھے اور فلاں فلاں لوگوں نے تو انہیں تسلیم کرلیا تھا اور فلاں فلاں نے نافرمانی اور کفر کیا تھا لیکن اس امت کے نافرمان لوگ صاف مکر جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔ بالفاظ دیگر یہ نافرمان لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آئیں گے اور اپنے نبی کی شہادت کو جھٹلا کر اسے مشکوک بنا دینے کی کوشش کریں گے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لایا جائے گا تو آپ ان انبیاء کی شہادت کی تصدیق کریں گے۔ اس وقت بھی نافرمان لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو اس وقت موجود ہی نہ تھے یہ کیسے انبیاء کی تصدیق کرسکتے ہیں؟ اس وقت آپ فرمائیں گے کہ میں تو منزل من اللہ وحی کی رو سے دنیا میں بھی سابقہ انبیاء کی تصدیق کرتا رہا پھر آج کیسے تصدیق نہ کروں گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’مجھے کچھ قرآن سناؤ‘‘ میں نے عرض کی ’’بھلا میں آپ کو کیا سناؤں؟ آپ ہی پر تو قرآن اترا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ٹھیک ہے مگر مجھے دوسرے سے سننا اچھا لگتا ہے۔‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’پھر میں نے سورۃ نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ....﴾ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بس کرو میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ سابقہ تمام انبیاء پر شہادت دینے کا شرف آپ کو حاصل ہوگا۔ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب سورۃ نساء پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچے، تو فرمایا کہ تشکر و امتنان اور مسرت و انبساط کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یعنی ایک طرف تو اللہ کی عطا کردہ فضیلت پر انتہائی خوشی کی وجہ سے، دوسرے اللہ کی اس عطا پر انتہائی شکر گزاری کے طور پر آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔