سورة النسآء - آیت 36

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، (٢٩) ساتھ بیٹھے (یاساتھ کھڑے) ہوئے شخص (٣٠) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ رکھو) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٣] شرک کے لیے دیکھیے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٨٠، اور حاشیہ نمبر ١٥٤) [٦٤] والدین سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورۃ بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٢٥ تا ٢٨۔ اور اقرباء سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورۃ نساء کا حاشیہ نمبر ٣۔ [٦٥] یتیموں سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورۃ نساء کی آیات ٢ تا ٦ کے حواشی۔ [٦٦] ہمسایہ سے بہتر سلوک :۔ ہمسایوں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علیٰ اکرام الجار) ٢۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے ’’اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں‘‘ صحابہ نے پوچھا ’’کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !‘‘ فرمایا ’’جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان تحریم ایذاء الجار) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ شخص جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جبریل مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بھی بنا دیں گے۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب الوصایہ بالجار۔۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ باب الوصیۃ بالجار) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ابو ذر جب تم سالن پکاؤ تو اس کا شوربا زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔‘‘ (مسلم۔ ایضاً) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے (فروختنی جائیداد کا) زیادہ حقدار ہے۔‘‘ (بخاری کتاب السلم باب عرض الشفعۃ علی صاحبہا قبل البیع) ٨۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا ’’اللہ کے رسول ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو تحفہ بھیجوں‘‘ فرمایا ’’جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب المسلم باب ای الجواراقرب) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے مسلم عورتو! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ تحفہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الہبتہ، و التحریض علیہا۔۔ مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی (شہتیر وغیرہ) رکھنے سے منع نہ کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب المظالم۔ باب لایمنع جار جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ) ١١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب آپ اپنے ہمسایوں کو یہ کہتے سنیں کہ آپ نے اچھا کام کیا تو فی الواقع آپ نے اچھا کام کیا اور جب آپ سنیں کہ آپ نے برا کام کیا تو فی الواقع آپ نے برا کام کیا۔‘‘ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد فی الدنیا، باب الثناء الحسن) ١٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتا ہے اس حال میں کہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی) اس آیت میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں۔ دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں۔ تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو۔ حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے۔ تاہم اسی ترتیب سے الاقرب فالاقرب کا خیال ضرور رکھا جائے۔ سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں، پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے۔ اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا کو لیگ ہوں۔ اور مندرجہ بالا احادیث سے نہایت اہم چیز جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی اور مل جل کر رہنے کا زبردست مؤید ہے۔ آج کے دور میں کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہائش ہے جہاں ساتھ والے ہمسائے تک کو اس کی غمی یا خوشی کی خبر تک نہیں ہوتی، یہ اسلامی نظریہ معاشرت کے عین برعکس ہے۔ پھر اسلام جن اعلیٰ اقدار کا سبق دیتا ہے تہذیب و تمدن کی تبدیلی نے ان اقدار کو بھی یکسر بدل دیا ہے مثلاً اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کوئی ہمسایہ اپنے ہمسائے کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھ لینے سے منع نہ کرے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر ہمسائے بھائی بھائی بھی ہوں تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اپنی دیوار اپنے بھائی کی دیوار سے بالکل الگ تعمیر کرے۔ گو یہ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ بعد میں کسی وقت تنازعہ پیدا نہ ہو مگر شریعت نے تنازعہ پیدا کرنے کا نہیں بلکہ تنازعہ کو ختم کرنے اور بھائی بھائی نہ ہونے کے باوجود بھائی بھائی بن کر رہنے کا سبق دیا تھا۔ پھر ان احادیث میں جو حقوق بیان کیے گئے ہیں وہ بڑے واضح ہیں جن کی شرح و تفصیل کی ضرورت نہیں اور پڑھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہمسائے بھی اپنے ہی گھر کے افراد ہیں اور یہ بھی غور فرمائیے کہ اگر ان ارشادات نبوی پر عمل کیا جائے تو معاشرہ میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ [٦٧] مسافروں سے بہتر سلوک :۔ مسافروں سے بہتر سلوک کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ اثنائے سفر میں آپ نے ہمیں فرمایا ’’جس کے پاس فاضل سواری ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس کھانا نہیں۔ غرضیکہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المواسات بفضول المال ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو جو سفر پر روانہ ہو رہا تھا، کہا کہ میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں ایسے ہی رخصت کروں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا " اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ " (میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے آخری اعمال اللہ کے سپرد کرتا ہوں) (ترمذی، ابو اب الدعوات، باب مایقول اذا ودع انسانا) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں اور نہ انہیں پاک کرے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ جس کے پاس راستہ میں فاضل پانی ہو اور وہ مسافر کو بھی پانی نہ دے۔‘‘ (بخاری، کتاب المساقات۔ باب اثم من منع ابن السبیل من المائ) ٤۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ ہمیں روانہ کرتے ہیں پھر ہم (راستے میں) ایسے لوگوں کے پاس اترتے ہیں جو ہماری مہمانی تک نہیں کرتے تو آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر وہ لوگ دستور کے مطابق تمہاری مہمانی کریں تو فبہا اور اگر نہ کریں تو دستور کے مطابق مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔ ‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ۔۔ الخ) مندرجہ بالا احادیث سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں : ١۔ ہم سفر لوگوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ضروری ہے۔ اگر ایک مسافر کے پاس کھانے پینے کی یا ضرورت کی کوئی بھی چیز اپنی ضرورت سے زائد ہے تو اسے اپنے ایسے مسافر بھائی کو وہ چیز دینا ضروری ہے جس کے پاس وہ چیز نہ ہو اور پانی کا بالخصوص اس لیے ذکر آیا کہ یہ زندگی کی نہایت اہم بنیادی ضرورت ہے۔ لہٰذا اپنی ضرورت سے زائد پانی نہ دینے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جس فعل کے متعلق قرآن یا حدیث میں یہ مذکور ہو کہ اللہ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، یا پاک نہیں کرے گا تو ایسا فعل گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ ٢۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب بھر میں پانی کی بھی قلت تھی اور بستیوں اور شہروں کی بھی۔ لہٰذا اس دور میں بستی والوں کا مسافروں کی مہمانی سے انکار دراصل انہیں مار دینے کے مترادف ہوتا تھا لہٰذا بصورت انکار ان سے حق وصول کرلینے کی اجازت دی گئی لیکن آج کل اور بالخصوص پاکستان میں ایسی صورت نہیں ہے پانی عام ہے۔ بستیاں قریب قریب ہیں اور کھانے پینے کی دکانیں اور ہوٹل بکثرت موجود ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں کسی ناجائز طریقہ سے مہمانی وصول کرنے کا حق نہیں اور اب یہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب مسافر کے پاس زاد راہ ختم ہوجائے اور کوئی شخص اس کو کھانا کھلانے یا مہمانی کرنے پر تیار نہ ہو ایسے مسافر کو صدقہ حتیٰ کہ زکوٰۃ بھی دی جا سکتی ہے خواہ وہ اپنی گھر میں کتنا ہی امیر ہو۔ [٦٨] لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک :۔ لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور فلاں (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ۔۔ آزاد شدہ حبشی غلام) کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو میں نے اسے ماں کی عار دلائی (یہ کہا تھا اے کالی ماں کے بیٹے!) تو انہوں نے ( بلال رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ کو بتا دی۔ آپ نے مجھے فرمایا 'ابو ذرص! تم ایسے انسان ہو جس میں جاہلیت (ابھی باقی) ہے۔ میں نے کہا ’’اتنی بڑی عمر ہوجانے کے باوجود بھی باقی ہے؟‘‘ فرمایا ’’ہاں! یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ تو جس شخص کا بھائی اللہ اس کے تحت کر دے تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ ایسا کام کرنے کو نہ کہے جو اس پر بھاری ہو۔ اور اگر ایسا کام کرنے کو کہے تو خود اس کی مدد بھی کرے۔‘‘ (بخاری کتاب الادب۔ باب ماینھی من السباب واللعن۔ نیز کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنے غلام پر تہمت لگائے درآنحالیکہ وہ اس چیز سے بری ہو جو اس نے تہمت لگائی ہے تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین، باب قذف العبید) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو بھی اسے لقمہ دو لقمے دے دے۔ کیونکہ اس نے پکانے کی گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب العتق، باب اذا اتاہ خادمۃ بطعامہ) ٤۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو اچھی طرح تعلیم دے اور اچھی طرح ادب سکھائے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری۔ نیز کتاب العلم۔ باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی شخص (اپنے لونڈی غلام کو) عبد (بندہ) اور امتہ (بندی) نہ کہے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور سب عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں بلکہ یوں کہو۔ میرا خادم اور میری خادمہ اور میرا بچہ اور میری بچی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الالفاظ من الادب، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد والامۃ و المولی والسید) ٦۔ غلاموں کا وقار بلند کرنے کے اقدامات :۔ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا۔ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی 'ابو مسعود! جان لو۔ ' میں غصہ کی وجہ سے آواز نہ پہچان سکا۔ جب کہنے والا قریب آیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور یوں کہہ رہے تھے ’’ابو مسعود! جان لو! ابو مسعود! جان لو!‘‘ آپ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرگیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابو مسعود! خوب سمجھ لو کہ جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر ہے اس سے زیادہ قدرت اللہ کو تم پر ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے کہا کہ آج کے بعد کبھی غلام کو نہ ماروں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ غلام اللہ کی خاطر آزاد ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تجھے جھلس دیتی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان، باب صحبۃ الممالیک) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنے غلام کو بغیر کسی قصور کے حد لگائے یا طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٨۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا” میں اپنے غلام کو کتنی بار معاف کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے اپنی بات دہرائی تو بھی آپ خاموش رہے۔ پھر تیسری بار جب یہی بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خادم کو ہر دن میں ستر دفعہ معاف کرو‘‘ (ابو داؤد، کتاب الادب باب فی حق المملوک ) ٩۔ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے دروازہ کے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’غالباً وہ شخص (جس کے حصہ میں یہ آئی ہے) اس سے جماع کرنا چاہتا تھا ؟‘‘ صحابہ نے کہا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو قبر میں اس کے ساتھ داخل ہو بھلا وہ اس بچہ کا کیسے وارث ہوسکتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں اور وہ اس بچہ کو کیسے غلام بنا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب النکاح۔ باب تحریم وطی الحامل المسبیۃ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے، قیامت کے دن میں خود اس کے خلاف استغاثہ کروں گا۔‘‘ (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الاجارۃ۔ فصل اول) جنگ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگی قیدیوں کو مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی کہ استَوْصُوْابِالْاُسَارٰی خَیْرًا۔ یعنی ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ انہی قیدیوں میں سے ایک قیدی ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جس انصاری کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ خود تو کھجوریں کھاتے تھے۔ لیکن مجھے صبح و شام روٹی کھلاتے تھے۔ ١١۔ اسلام میں داخل ہونے کے لئے شہادتیں :۔ معاویہ بن حکم اسلمی سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن میں وہاں آ نکلا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک بکری لیے جا رہا ہے۔ میں بھی آخر آدمی ہوں مجھ کو بھی ایسے غصہ آتا ہے جیسے دوسروں کو آتا ہے۔ میں نے اس لونڈی کو ایک طمانچہ مارا۔ پھر میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس فعل کو بہت بڑا جرم سمجھا۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے آپ کے پاس لے کر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا۔ آسمان پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میں کون ہوں؟ وہ کہنے لگی۔ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسے آزاد کردے۔ یہ مومنہ ہے۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ۔۔) اسلام سے پہلے غلاموں کی جس قدر بدتر حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ اسلام نے غلاموں کو اتنے حقوق عطا کیے کہ وہ معاشرہ کا معزز فرد بن گئے۔ اسلام نے ان سے حسن سلوک کی جو تاکید کی تھی یہ اسی کا اثر تھا کہ نام کے علاوہ غلام اور آزاد میں کچھ فرق نہ رہ گیا۔ غلاموں کا فقیہ اور محدث ہونا تاریخ سے ثابت ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو اپنا متبنیٰ بنایا۔ پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا۔ زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور ان کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ دونوں کو کئی بار سپہ سالارلشکر بنایا۔ جن کے تحت صحابہ کبار جنگ میں شریک ہوئے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو جو کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے حبشی غلام تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کردیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’اگر تم پر نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے تو جب تک وہ تمہیں اللہ کے احکام کے مطابق چلاتا رہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔) چنانچہ تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان بادشاہ گزرے ہیں جو غلام تھے۔ محمود غزنوی مشہور فاتح ہند بھی آزاد کردہ غلام تھا۔ ہندوستان اور مصر میں غلاموں کے خاندان نے صدیوں تک حکومت کی۔ مغلوں کی ہند میں آمد سے بہت پہلے خاندان غلاماں کے کئی فرمانرواؤں نے ہند پر حکومت کی۔ اب وہ کونسا اعزاز باقی رہ جاتا ہے جو آزاد کے ساتھ مخصوص ہو اور غلام اس سے محروم ہو۔ اور بعض لوگوں نے ﴿اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ﴾میں ان جانوروں اور مویشیوں کو بھی شامل کیا ہے جو انسان اپنی ضرورت کے تحت اپنے گھر میں پالتا ہے مثلاً سواری کے لیے گھوڑا یا اونٹ۔ دودھ حاصل کرنے کے لیے بھیڑ بکری یا گائے بھینس اور انڈوں اور گوشت وغیرہ کے لیے مرغیاں پالنا وغیرہ۔ کہ یہ جانور بھی اپنے مالک کے حسن سلوک کے مستحق ہیں اور یہ توجیہ اس لحاظ سے بہت خوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں پر رحم کرنے اور ان سے بہتر سلوک کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ [٦٩] یعنی وہ لوگ جو اپنی انا میں مست و مغرور رہتے ہیں اور شیخی بگھارتے ہیں اور اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔