وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تمہیں میاں بیوی کے د رمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے د رمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔
[٦١] زوجین میں ثالثی فیصلہ :۔ اور اگر میاں بیوی کے تعلقات سنورنے میں نہ آ رہے ہوں اور ان میں سے ہر کوئی دوسرے پر الزام تھوپ رہا ہو تو طلاق سے پہلے فریقین اپنے اپنے خاندان میں سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورتحال کو سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ ثالث طرفین کی طرف سے ایک ایک آدمی بھی ہوسکتا ہے دو دو بھی اور تین تین بھی۔ جو بات بھی میاں بیوی دونوں کو تسلیم ہو اختیار کی جا سکتی ہے۔ [٦٢] یہاں دونوں سے مراد میاں بیوی بھی ہو سکتے ہیں اور طرفین کے ثالث حضرات بھی۔ یعنی اگر ان کی نیت بخیر ہوگی تو اللہ تعالیٰ زوجین میں ضرور موافقت کی راہ نکال دے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ثالث سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فہوالمراد۔ اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ تفریق کے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ تو کیا وہ یہ اختیار بھی رکھتے ہیں (یعنی مرد سے طلاق دلوانے کا یا خلع کا) یا نہیں۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ ثالثی بنچ یہ اختیار بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک طرح کی عدالت ہی ہوتی ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ایسے اختیارات صرف عدالت کو ہیں اور یہ بنچ عدالت کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرسکتا ہے۔ عدالت یہ اختیار خود بھی استعمال کرسکتی ہے اور وہ یہ اختیار اس ثالثی بنچ کو بھی تفویض کرسکتی ہے اور چاہے تو اپنی طرف سے علیحدہ بنچ مقرر کر کے اسے یہ اختیار دے سکتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یونین کونسلوں کو ایسے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔