لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
بے شک تمہارے لیے کہ اللہ اور یوم آخرت سے ڈرتے ہو، ان لوگوں کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے اور جو شخص اس کی طرف سے منہ موڑے تو اللہ تعالیٰ تو انسانوں کے اعمال کا کچھ محتاج نہیں
[١٣] سیدنا ابراہیم کے ساتھیوں کے تین اوصاف :۔ یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے یہاں اللہ تعالیٰ نے تین اوصاف بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ انہوں نے مشرکوں سے مکمل طور پر قطع تعلق کرلیا تھا اور یہ قطع تعلق دائمی تھا، تاآنکہ مشرک شرک سے باز آجائے۔ دوسرے وہ صرف اللہ پر توکل رکھتے تھے، تیسرے وہ اپنے حق میں اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کی توفیق کی دعائیں بھی کرتے رہتے تھے اور بجا بھی لاتے ہیں۔ یہ صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم لوگ فی الواقع اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے اور اس سے جزائے اعمال کی امید رکھتے ہو تو تمہیں بھی ان جیسے کام کرنے چاہئیں۔ [١٤] تَوَلَّ کا ایک معنی تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا معنی دوست بنانا، دوستی گانٹھنا ہے۔ یعنی جو شخص سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے قابل تقلید نمونہ کے باوجود اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور توقع رکھنے کے باوجود مشرکوں سے دوستی گانٹھتا ہے تو اللہ کو اس کے ایسے ایمان کی کوئی پروا نہیں۔ کیونکہ وہ تو بے نیاز ہے۔ اور یہ مطلب اصل مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ [١٥] یہ صورت نہیں کہ اگر کوئی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے تو تب ہی وہ محمود ہے۔ وہ کسی کے حمد و ثنا بیان کرنے کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ اس کی حمدو ثنا بیان کرنے سے حمد کرنے والے کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ کا اس سے کچھ نہیں سنورتا اور حمد و ثنا نہ کرنے سے اس کا بگڑتا بھی کچھ نہیں۔