وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور (ان اموال فے کے وہ لوگ بھی مستحق ہیں) جو ان مہاجرین سے پہلے دار الہجرت میں مقیم ہیں اور وہ ایمان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور مہاجرین کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اور خواہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں، اور جو لوگ اپنے طبعی بخل وحرص سے بچا لیے گئے تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
[١١] انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار اور فے میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کمال فضیلت بیان فرمائی جو مسلمانوں کے ہجرت کرکے مدینہ آنے سے پیشتر بیعت عقبہ کی رو سے ایمان لاچکے تھے اور انہوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں وہ مثال قائم کی جس کی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔ ان اولین انصار نے مہاجرین کو اپنی جائیداد، گھر بار اور نخلستانوں میں شریک کرلیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت انصار مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں کھجور کے درخت تقسیم کر دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا (جائیداد تمہاری ہی رہے گی) تب انصار مہاجرین سے کہنے لگے۔ اچھا ایسا کرو۔ درختوں کی خدمت تم کرو۔ ہم پیداوار میں تمہیں شریک بنا لیتے ہیں۔ تب مہاجر کہنے لگے بہت خوب! ہم نے سنا اور مان لیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی المعاملۃ) اس سے اگلا ایثار یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہاجرین تو کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ تو انصار نے اس معاملہ میں بھی اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی۔ تاہم نصف پیداوار انہیں دینا قبول کرلیا۔ اور اب جب بنونضیر کے اموال فے تقسیم کرنے کی باری آئی تو انصار نے از خود یہ کہہ دیا کہ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم کردیجئے۔ اور ہمارے پہلے نخلستان ہی ہمارے پاس رہنے دیجئے۔ (یعنی اب ان میں مہاجرین شریک نہ ہوں گے) بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں تو ہم ان میں سے بھی دینے کو تیار ہیں۔ یہ تھا وہ ایثار جس کی بنا پر ان کا درجہ بہت بلند ہوگیا تھا۔ اور اللہ نے بطور خاص ان انصار کی تعریف فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے بطور حق یہ ارشاد فرمایا کہ ایسے ایثار کرنے والے انصار کا بھی اموال فئے میں خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ لیکن وہ از راہ ایثار اپنے اس حق سے اپنے مہاجر بھائیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے اس ایثار نے مہاجرین کے دل میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (مرتے وقت) وصیت کی کہ : میرے بعد جو خلیفہ ہو وہ مہاجرین کا حق پہچانے اور انصار کا بھی حق پہچانے۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں جگہ پکڑی اور ایمان کو سنبھالا۔ خلیفہ کو لازم ہے کہ ان میں سے جو نیک ہوں اس کی قدر کرے اور برے کی برائی سے درگزر کرے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور مہاجرین کی آمد پر جس قدر خوشی انصار کو ہوتی تھی وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے : مہاجرین کی آمد پر انصار کی خوشی :۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مدینہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے سب سے پہلے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ام مکتوم ہمارے پاس آئے۔ وہ دونوں ہمیں قرآن پڑھاتے رہے۔ پھر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، بلال رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیس آدمی اپنے ساتھ لیے ہوئے آئے۔ پھر ان کے بعد آپ تشریف لائے۔ مدینہ والے اتنے خوش کبھی بھی نہ ہوئے تھے جتنے خوش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ہوئے۔ بچے بچیاں تک یوں کہہ رہے تھے۔ دیکھو! یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ میں آپ کی آمد سے پہلے ہی سورۃ اعلیٰ اور اس جیسی کئی سورتیں پڑھ چکا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الاعلیٰ) انہیں دنوں ایک انفرادی واقعہ بھی پیش آیا : جس میں ایک انصاری نے کمال ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ محدثین اس واقعہ کو بھی اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں۔ اور وہ حدیث یوں ہے : انصار کے ایثار کا ایک منفرد قصہ :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ( ابوہریرہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !’’میں بہت بھوکا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں کچھ نہ نکلا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کہا :’’کوئی ہے جو اس رات اس شخص کی مہمانی کرے۔ اللہ اس پر رحم کرے‘‘ ایک انصاری (ابوطلحہ ) نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کی مہمانی کروں گا اور اس شخص ( ابوہریرہ )کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی (ام سلیم) سے کہا :’’یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے لہٰذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ‘‘ وہ کہنے لگی : ’’اللہ کی قسم! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے‘‘ ابو طلحہ نے کہا : ’’اچھا یوں کرو۔ بچے جب کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سلا دو۔ اور جب ہم دونوں (میں اور مہمان) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کردینا۔ اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے‘‘ (اور مہمان کھا لے گا) چنانچہ ام سلیم نے ایسا ہی کیا۔ صبح جب ابو طلحہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں مرد (ابوطلحہ) اور فلاں عورت (ام سلیم) پر اللہ عزوجل بہت خوش ہوا اور اسے ہنسی آگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [١٢] لفظ شح کے لغوی معنیٰ:۔ شُحَّ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا، دوسرے مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا اور جس شخص میں یہ دونوں قباحتیں جمع ہوجائیں اسے شحیح اور شحاح کہتے ہیں۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری، تنگ ظرفی، سنگدلی، بے مروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہوسکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ مال و دولت سے محبت ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن اس طرح دولت کے پیچھے اندھے ہوجانا اور دولت کا پجاری بن جانا انتہائی قبیح خصلت ہے۔ جس سے اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اسلام اس بدخصلت کے علاج کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے جس سے سماحت، وسعت نظر، ہمدردی، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ گویا شح سے نجات پاجانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے اور جنت میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔