يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو ! یہ بات تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو، اور ان کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ لے اڑو، الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں، (١٦) اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
[٣٢] جاہلیت میں عورت ترکہ کا مال تھا :۔ یعنی عورت بھی ترکہ کا مال تصور ہوتی تھی اور اس کا وارث سوتیلا بیٹا یا میت کا بھائی ہوتا تھا چنانچہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص مرتا تو اس کی بیوی پر میت کے وارثوں کا زور چلتا تھا (وہ بھی ترکہ ہی تصور ہوتی تھی) چاہتے تو خود اس سے نکاح پڑھا لیتے، چاہتے تو کسی اور سے نکاح کردیتے اور چاہتے تو اسے بلانکاح ہی رہنے دیتے۔ غرض اس پر خاوند کے وارثوں کا اختیار تھا، عورت کے وارثوں کا کچھ بھی اختیار نہ تھا۔ پھر یہ آیت اتری (جس سے عورتوں کو پوری آزادی مل گئی۔) (بخاری، کتاب التفسیر) [٣٣] یعنی انہیں گھر میں قید رکھنے کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ بدکاری کا ارتکاب کریں۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٥ میں گزر چکا ہے اور یہ حکم عام ہے۔ صرف ان سوتیلی ماؤں کے لیے نہیں جو تمہارے باپوں کے نکاح میں تھیں۔ ورنہ صرف مال ہتھیانے کے لیے عورتوں کو روکے رکھنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ [٣٤] اپنی بیویوں سے حسن معاشرت کے سلسلہ میں درج ذیل ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے : ١۔ بیویوں سے حسن معاشرت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’مومنوں میں سب سے کامل وہ شخص ہے۔ جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الرضاع۔ باب حق المرأۃ علٰی زوجھا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خطبہ حجتہ الوداع کے دوران) فرمایا۔ ’’عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی ذمہ داری پر حاصل کیا ہے اور ان کی شر مگاہوں کو اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن اس طرح کہ انہیں چوٹ نہ آئے۔ اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور کے مطابق خوراک اور پوشاک مہیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’کوئی مومن (اپنی) مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الرضاع۔ باب الوصیۃ بالنساء) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اسی حالت میں اٹھاؤ جبکہ اس میں کجی موجود ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب المداراۃ مع النساء مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنسائ) [٣٤۔ ١] مثلاً تمہاری بیوی خوبصورت یا تعلیم یافتہ تو نہیں مگر وہ کفایت شعار ہے۔ اور خانہ داری سے خوب واقف ہے اور تنگی ترشی میں خاوند کو ناجائز تنگ نہیں کرتی بلکہ اس کی اطاعت گزار اور فرمانبردار ہے۔ اب اگر مرد محض کسی عورت کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اپنے گھر میں لانا اور اسے رخصت کرنا چاہتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ خوبصورت عورت مطالبات سے اپنے خاوند کا ناک میں دم کر دے۔ کفایت شعار بھی نہ ہو اور گھر کی صفائی اور امور خانہ داری کے لیے شوہر سے کسی ملازم یا ملازمہ کا مطالبہ کر دے اور اس پر جینا حرام کر دے لہٰذا جو کچھ تمہارے پاس ہے اسی پر اکتفا اور قناعت کرو اور اسی سے نبھانے کی اور حسن سلوک کی حتی الامکان کوشش کرو اور اپنی گھریلو زندگی کو بگاڑنے کے بجائے اس میں اصلاح پیدا کرنے کی کوشش کرو۔