إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لی ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کر ڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی۔
[٣٠] توبہ کس کی قبول ہے اور کس کی نہیں :۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کے لیے دو باتوں کی قید لگا دی۔ ایک تو یہ کہ وہ گناہ از راہ نادانی، جہالت یا نادانستہ طور پر سرزد ہوا ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اس قصور وار کو بعد میں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ کرے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہو یعنی گناہ بھی دانستہ طور پر اور اللہ کے احکام پر دلیر ہو کر کیا گیا ہو یا گناہ تو نادانستہ واقع ہوا ہو مگر توبہ میں عمداً تاخیر کرتا جائے تو ایسی صورتوں میں توبہ کے قبول ہونے کا کوئی امکان نہیں۔