وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ
اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ (١٣) یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔
[٢٣] میت اگر عورت ہے تو اس کے خاوند کو آدھا ترکہ ملے گا۔ بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو خاوند کو ٤/١ ملے گا۔ اور اگر میت مرد ہے تو بیوی کو ٤/١ ملے گا بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو اور اگر بیویاں ایک سے زیادہ ہوں تو ٤/١ ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ اور اگر میت کی اولاد بھی ہو خواہ وہ کسی بھی بیوی سے ہو تو بیوی یا بیویوں کو ٨/١ ملے گا۔ ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں یہ ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ (یہ زوجین کے حصے ہوئے) [٢٤] کلالہ کی میراث :۔ کَلالۃ وہ شخص ہے جس کے نہ والدین ہوں نہ دادا دادی، اور نہ اولاد اور نہ پوتے پوتیاں۔ خواہ وہ میت مرد ہو یا عورت وہ کلالہ ہے البتہ اس کے بہن بھائی ہو سکتے ہیں۔ بہن بھائی بھی تین قسم کے ہوتے ہیں (١) عینی یا حقیقی یا سگے بھائی جن کے والدین ایک ہوں۔ (٢) علاتی یا سوتیلے بہن بھائی جن کی مائیں الگ الگ اور باپ ایک ہو (٣) اخیافی یعنی ایسے سوتیلے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ اس آیت میں جن بہن بھائیوں کا ذکر ہے وہ بالاتفاق اخیافی یعنی ماں کی طرف سے بھائیوں کا ہے اور اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٧٦ میں دوسرے بہن بھائیوں کا ذکر ہے اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ ٣/١ ہے۔ اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ہر ایک کا ٦/١ اور اگر بہن بھائی زیادہ ہوں تو بھی انہیں ٣/١ سے زیادہ نہیں ملے گا۔ اور یہ ٣/١ حصہ ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ مرد کو عورت سے دگنا نہیں ملے گا۔ اور اگر صرف ایک ہی بھائی یا ایک ہی بہن ہو تو اسے ٦/ ١ ملے گا۔ باقی پہلی صورت میں ٣/٢ اور دوسری صورت میں ٦/٥ بچ جائے گا۔ کلالہ باقی پورے حصہ کے متعلق وصیت کرسکتا ہے یا پھر یہ حصہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا بشرطیکہ کوئی عصبہ نہ مل رہا ہو۔ [٢٥] وصیت کے ذریعہ نقصان پہنچانے کی صورتیں :۔ وصیت میں میت یوں نقصان پہنچا سکتا ہے کہ اندازہ سے زیادہ وصیت کر جائے۔ اور یہ تہائی سے بھی زیادہ ہو یا عمداً ایسا کرے تو اس سے وارثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایسی وصیت کی اصلاح کر دینی چاہیے تاکہ ورثاء کو نقصان نہ ہو۔ اسی طرح میت مرتے وقت کسی فرضی قسم کے قرضہ کا اقرار کر جائے تو وہ قرض لینے والے کو ممنون اور ورثاء کو نقصان پہنچا سکتا ہے حتیٰ کہ محروم بھی بنا سکتا ہے اسی لیے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور حلیم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے ان قوانین کے مقرر کرنے میں سختی نہیں کی۔ بلکہ ان کی زیادہ سے زیادہ سہولت کا خیال رکھا ہے۔ کتاب و سنت میں جن ورثاء کے حصے مقرر کردیئے گئے ہیں انہیں ذوی الفروض کہتے ہیں۔ قرآن کے علاوہ درج ذیل ورثاء کے حصے سنت کی رو سے مقرر ہیں۔ چنانچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : (١) دادا کا حصہ ١۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا۔ ’’میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کے ترکہ سے کیا ملے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’چھٹا حصہ‘‘ وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر کہا کہ تیرے لیے ایک چھٹا حصہ اور ہے۔ پھر اس کی وضاحت کی کہ یہ دوسرا چھٹا حصہ تمہارے لیے بطور خوراک (ابو داؤد) اور ترمذی میں لک عصبہ یعنی بطور عصبہ ہے۔ (ترمذی، ابو اب الفرائض، باب فی میراث الجد، ابو داؤد۔ کتاب الفرائض۔ باب ماجاء فی میراث الجد) (٢) دادی اور نانی کا حصہ : ٢۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ماں نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جدہ (دادی یا نانی) کا چھٹا حصہ مقرر فرمایا۔ (ابو داؤد۔ کتاب الفرائض۔ باب فی الجدۃ) (٣) اگر ایک بیٹی اور ایک پوتی ہو : ٣۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیٹی، پوتی اور بہن کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ بیٹی کو نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو تہائی پورا ہوجائے (مونث اولاد کا زیادہ سے زیادہ حصہ) باقی بہن کو ملے گا۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ) (٤) اگر ایک بیٹی اور ایک بہن ہو ٤۔ اسود بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں ہمارے پاس معلم اور امیر بن کر آئے۔ ہم نے ان سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے مرتے وقت ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی انہوں نے بیٹی کو نصف دیا اور بہن کو بھی نصف دیا۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات) اور ابو داؤد میں یہ الفاظ زیادہ ہیں۔ ’’اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقید حیات تھے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الفرائض۔ باب من کان لیس لہ ولد ولہ اخوات ) (٥) بھتیجے کا حصہ پھوپھی سے ٥۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (تعجب سے) فرمایا کرتے تھے کہ ’’بھتیجا تو پھوپھی کا وارث ہے مگر پھوپھی بھتیجے کی وارث نہیں۔‘‘ (موطا۔ کتاب الفرائض، باب فی میراث العمۃ) مزید احکام وراثت ١۔ ذوی الفروض یعنی جن کے حصے کتاب و سنت نے مقرر کردیئے ہیں ان کی تفصیل اوپر گزر چکی۔ وارثوں کی دو اقسام :۔ ٢۔ عصبات۔ عصبہ میت کے قریب ترین رشتہ دار مرد کو کہتے ہیں اور ذوی الفروض کی ادائیگی کے بعد جو بچے وہ اسے ملتا ہے۔ جیسے سعد بن ربیع کے بھائی کو آپ نے دو بیٹوں کا ٣/٢ اور بیوی کا ٨/١، باقی ٢٤/ ٥ حصہ دلایا تھا۔ عصبہ کے متعلق آپ نے فرمایا : ٣۔ ’’اللہ کے مقرر کردہ حصے حصہ داروں کو ادا کرو۔ پھر جو باقی بچے وہ قریب ترین رشتہ دار مرد کا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث الولدمن ابیہ وأمہ۔ مسلم۔ کتاب الفرائض۔ باب الحقوا الفرائض باھلھا) بسا اوقات ذوی الفروض عصبہ کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتے ہیں مثلاً میت کی اولاد صرف دو بیٹیاں ہیں۔ نہ والدین ہیں نہ بیوی۔ تو بیٹیوں کو ٣/٢ ملے گا اور باقی کے لیے عصبہ تلاش کرنا پڑے گا لیکن اگر ان بیٹیوں کے ساتھ ایک بیٹا بھی ہو تو بیٹا چونکہ عصبہ ہے لہٰذا وہ بہنوں کو بھی عصبہ بنا دے گا اور تقسیم اس طرح ہوگی، بیٹے کا ٢/١ اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کا ٤/١۔ عصبہ کی تلاش۔ سب سے پہلے عصبہ اولاد سے دیکھا جائے گا۔ پھر اوپر کی طرف سے۔ پھر چچاؤں میں سے پھر ان کے بیٹوں سے۔ مولیٰ کا عصبہ ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (’’آزاد کردہ غلام کے) ورثہ کا (عصبہ کی حیثیت سے) حقدار وہ ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الفرائض۔ باب میراث السائبة۔ مسلم، کتاب الفرائض۔ باب انما الولاء لمن اعتق) ٥۔ ذوی الارحام : اگر ذوی الفروض اور عصبہ بھی موجود نہ ہو اور صرف بھانجے بھانجیاں، دوہتے دوہتیاں، ماموں وغیرہ ہوں۔ ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے۔ وہی اس کی طرف سے دیت دے گا اور وہی وارث ہوگا۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الفرائض۔ باب میراث ذوی الارحام) اب ہم قانون میراث کی چند مزید وضاحتیں پیش کرتے ہیں : عرب میں رائج وراثت کے تین طریقے :۔ اسلام کا قانون میراث نازل ہونے سے پیشتر عرب میں وراثت کے تین طریقے رائج تھے (١) ایک دوسرے سے عہد۔ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کو کہہ دیتا کہ میری جان تیری جان، میرا خون تیرا خون، میں تیرا وارث تو میرا وارث۔ جب کوئی شخص کسی سے ایسا عہد کرلیتا تو اس کے مقابلہ میں بھائی یا بیٹے کسی کو بھی ورثہ نہیں ملتا تھا۔ (٢) اور اقرباء کو وراثت سے محروم کرنے کا دوسرا طریقہ متبنّیٰ بنانے کا تھا۔ اگر کسی کی نرینہ اولاد نہ ہوتی تو وہ کوئی متبنیٰ بنا لیتا تھا جو اس کی پوری میراث کا حقدار سمجھا جاتا تھا (٣) اور اگر اولاد میں میراث تقسیم ہوتی تو اس کی صورت یہ تھی کہ حصہ صرف ان بیٹوں کو ملتا تھا جو میت کی طرف سے نیزہ لے کر لڑ سکتے تھے۔ اسلام کے قانون میراث نے پہلے دو طریق کو تو کلیتہً منسوخ کردیا اور تیسرے میں یہ اصلاح کی کہ ورثہ لڑکیوں کو بھی ملے، چھوٹے بچوں کو بھی ملے اور والدین کو بھی۔ جب مہاجرین نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مہاجرین کی معاش اور آباد کاری کا مسئلہ پیش آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں مواخات کا سلسلہ قائم کیا۔ اس وقت تک احکام میراث نازل نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان بھائی بھائی مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیا۔ پھر جب مہاجرین کی معاشی حالت قدرے سنبھل گئی تو یہ قانون منسوخ کردیا گیا اور وراثت کے تفصیلی احکام اس سورۃ میں نازل ہوئے۔ اسلامی قانون وراثت کا مدار تین چیزوں پر ہے : نسب، نکاح اور ولاء (١) نسب میں تین پہلوؤں کو اس ترتیب سے ملحوظ رکھا کہ سب سے پہلے اولاد کا جیسا کہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ دوسرے نمبر پر والدین کے حصوں کا ذکر ہوا اور تیسرے نمبر پر بہن بھائیوں کا ذکر ہے۔ (٢) نکاح سے مراد مختلف صورتوں میں میاں اور بیوی کے حصوں کا ذکر ہے۔ (٣) اور ولاء سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا آزاد کردہ غلام جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو اس کا وارث وہ مالک ہوتا ہے جس نے اسے آزاد کیا تھا اور یہ صورت آج کل مفقود ہے۔ نکاح کی بنا پر بھی حصوں کا ذکر نسبتاً آسان ہے کہ میت اگر عورت ہو اور بے اولاد ہو تو مرد کو اس کی میراث کا آدھا ملے گا اور اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کو چوتھائی حصہ ملے گا۔ اسی طرح اگر میت مرد بے اولاد ہو تو بیوی کو یا اس کی سب بیویوں کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اولاد والا ہے تو بیوی کو یا سب بیویوں کو آٹھواں حصہ بحصہ برابر ملے گا۔ اب نسب کے رشتہ داروں کے حصے ذرا قابل فہم ہیں۔ کیونکہ ان کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے چند مشہور و معروف عام صورتیں درج ذیل ہیں : ١۔ جو مرد یا عورت بوڑھا ہو کر اپنی طبعی موت مرتا ہے تو اس وقت عموماً اس کے والدین دنیا سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں اور اگر بہن بھائی ہوں تو الگ گھروں والے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اولاد ہی وارث ہوتی ہے۔ اب اگر اولاد ایک بیٹا ہی ہے تو زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکالنے کے بعد باقی سب میراث کا وارث ہوگا اور زیادہ بیٹے ہوں تو سب اس باقی حصہ میں برابر کے حصہ دار ہوں گے اور بہن بھائی اگر ملے جلے ہیں تو لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ کی نسبت سے ورثہ ملے گا۔ اور اگر لڑکا ایک بھی نہیں ایک لڑکی ہے تو اسے کل کا نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو انہیں کل کا ٣/٢ ملے گا۔ ٢۔ اس کے بعد عام صورت یہ ہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو۔ اگر دونوں زندہ ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو کل کا چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر باپ زندہ نہیں اور دادا زندہ ہے تو باپ کا حصہ دادا کو مل جائے گا۔ اور ماں زندہ نہیں لیکن نانی زندہ ہے تو ماں کا حصہ نانی کو مل جائے گا اور بقول بعض اگر نانی زندہ نہیں اور دادی زندہ ہے تو ماں کا حصہ دادی کو مل جائے گا۔ اور اگر دونوں زندہ ہیں تو یہی چھٹا حصہ دونوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ والدین کا اور زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکال لینے کے بعد باقی میراث اولاد میں تقسیم ہوگی بحساب مذکر ٢ حصے اور مونث ایک حصہ۔ اس صورت میں کبھی ایک الجھن بھی پیش آ سکتی ہے مثلاً میت عورت ہے جس کے والدین بھی زندہ ہیں شوہر بھی اور دو لڑکیاں بھی۔ لڑکیوں کا ٣/٢ حصہ اور والدین میں سے ہر ایک کا ٦/١ یعنی دونوں کا ٣/١ حصہ، اور خاوند کا ٤/١۔ بالفاظ دیگر جائیداد کے کل بارہ حصے کرنے چاہئیں۔ جن میں سے ٨ تو لڑکیاں لے گئیں ٣ خاوند لے گیا اور ٢ حصے والدہ کے اور ٢ حصے والد کے۔ یہ کل ١٥ حصے بنتے ہیں (یعنی حاصل جمع ایک سے بڑھ جاتی ہے) ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں عول کہتے ہیں۔ اس صورت میں کل جائیداد کے ١٢ کے بجائے پندرہ حصے کر کے انہیں مذکورہ بالا حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر عصبہ نہ مل رہا ہو تو اس کے برعکس صورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ مثلاً میت مرد ہے جس کی بیوی فوت ہوچکی ہے۔ ماں زندہ ہے لیکن باپ فوت ہوچکا ہے۔ دادا بھی نہیں اور اولاد صرف ایک لڑکی ہے۔ گویا اس کے وارث صرف ماں اور بیٹی میں اور عصبہ کوئی بھی نہیں مل رہا۔ حصوں کے لحاظ سے جائیداد ٦ حصوں میں تقسیم ہوگی جن میں سے ٣ حصے تو بیٹی لے گی اور ایک حصہ ماں۔ باقی ٢ حصے بچ جائیں گے ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں رد کہتے ہیں۔ اس صورت میں یہ حصے بھی اسی نسبت سے ان دونوں کو مل جائیں گے۔ بالفاظ دیگر یہ میراث ہی ٦ کی بجائے ٤ حصوں میں تقسیم کر کے ٣ حصے بیٹی کو اور ایک ماں کو دے دیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ ذوی الفروض کی موجودگی میں بقیہ ترکہ ذوی الارحام کو نہیں ملتا۔ بلکہ پھر انہیں پر تقسیم ہوجاتا ہے۔) (٣) تیسری عام صورت یہ ہے کہ ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ابھی اولاد بھی نہ ہوئی تھی کہ زوجین میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا اور اس کے والدین زندہ ہیں لیکن اور کوئی بہن بھائی نہیں تو اس صورت میں ماں کو ایک تہائی، میت اگر مرد ہے تو عورت کو ایک چوتھائی اور باقی ١٢/ ٥ باپ کو ملے گا۔ اور اگر میت عورت ہے تو ماں کے ٤ حصے، خاوند کے ٦ حصے اور باپ کو صرف ٢ حصے یا ماں کا نصف ملے گا۔ اور اگر بہن بھائی بھی ہیں تو ماں کو ٦/١ حصہ ملے گا۔ یعنی ماں کے دو حصے، بیوی کے تین حصے باقی سات حصے باپ کو ملیں گے۔ اور اگر میت بیوی تھی تو ماں کے ٢ خاوند کو اور باپ کو ٤ حصے مل جائیں گے۔ یہ چند عام صورتیں بیان کردی گئیں ورنہ میراث کی اتنی صورتیں بن جاتی ہیں جن کا حصران حواشی میں ممکن نہیں۔ میں نے ان کی تفصیل اپنی کتاب ’تجارت اور لین دین کے احکام‘ کے پندرہویں باب ’احکام وراثت‘ میں درج کردی ہیں۔