لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
(مسلمانو) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں ( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں)
[١٨٥] ابتلا کے فوائد:۔ یہ انتباہ کرکے مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے اور آزمائش کے فوائد پہلے بتلائے جاچکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ابتلاء سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں اور مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجاتا ہے۔ [١٨٦] یہود اور مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کو جو تکالیف پہنچیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے، اور کتاب و سنت میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان کا حصران حواشی میں ممکن نہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دور نبوی میں ہجرت نبوی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی زندگی انہیں لوگوں سے دکھ اٹھاتے گزری تو بے جا نہ ہوگا، اور مسلمانوں کو یہ خبر اس لیے دی جارہی ہے کہ ذہنی طور پر مسلمان ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔