كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔
[١٨٣] اخروی کامیابی کا معیار:۔ یعنی موت تو ہر ایک کو آ کے رہے گی اور قیامت کے دن ان یہود کو ان کے اعمال کا بدلہ مل کے رہے گا اور ایک حدیث ہے 'مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قَیَامَتُہُ' یعنی جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ اس لحاظ سے عذاب و ثواب مرنے کے ساتھ ہی عالم برزخ میں شروع ہوجاتا ہے اور کامیابی کا معیار یہ ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ اس آیت میں ان متصوفین کا رد موجود ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ دوزخ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے اور نہ جنت کی طلب رکھنی چاہئے۔ بلکہ محض اللہ کی رضا کو ملحوظ رکھ کر اس کی عبادت کرنا چاہئے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے لیے قبر کے عذاب اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے اور جنت کے لیے دعا فرماتے رہے۔ [١٨٤] دنیا کس لحاظ سے دھوکے کا سامان ہے؟ یعنی دنیا میں کسی پر نعمتوں کی بارش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حق پر ہے اور اللہ کے ہاں مقبول بندہ ہے۔ اسی طرح کسی کا مصائب و مشکلات میں مبتلا ہونا بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس سے ناراض ہے یا وہ باطل پر ہے۔ بلکہ بسا اوقات اخری نتائج ان کے برعکس ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو اس دھوکہ میں نہ رہنا چاہئے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی عارضی بہار اور ظاہری زیب و زینت میں اتنی کشش ہے اور اتنی پرفریب ہے جس میں مگن ہو کر انسان بسا اوقات آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور غافل رہتا ہے۔ تاآنکہ جب موت آجاتی ہے تب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ مجھے دنیا میں رہ کر کرنا کیا چاہئے تھے اور میں کرتا کیا رہا۔ چنانچہ اسی مضمون کی ایک حدیث ہے کہ 'الناس نیام اذا ماتوا انتبھوا' (یعنی لوگ سوئے پڑے ہیں جب مریں گے تب ہوشیار ہوں گے) دنیا دارالامتحان ہے اور ا س کا ایک ایک لمحی قیمتی ہے:۔ یہ تو دنیا کے دھوکے کا پہلو ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا ہر شخص کے لئے دارالامتحان ہے۔ اس کی زندگی عیش و عشرت میں گزر رہی ہو یا تنگی ترشی میں، وہ خود صحت مند ہو یا بیمار ہو، عالم ہو یا نادان۔ غرضیکہ انسان کی کوئی بھی حالت ہو وہ امتحانی دور سے گزر رہا ہے۔ اس امتحانی دور یا امتحانی پرچے کا آخری وقت اس کی موت ہے۔ موت کے ساتھ ہی اسے یہ از خود معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب رہا ہے یا ناکام؟ ساتھ ہی اس کی کامیابی اور ناکامی کے اس پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اور آخرت میں اسے اس کے اعمال کے مطابق اچھا یا برا بدلہ مل کے رہے گا۔ اس لحاظ سے دنیا اور اس کی زندگی بلکہ اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی زندگی کے لمحات سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔