وَلَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۗ يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھا رہے ہیں، وہ تمہیں صدمے میں نہ ڈالیں، یقین رکھو وہ اللہ کا ذرا بھی نقصان نہیں کرسکتے، اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے زبردست عذاب (تیار) ہے۔
[١٧٤] اس دور میں مسلمانوں کے علاوہ جتنی بھی اقوام تھیں۔ سب ہی اسلام دشمن اور اسے مٹانے کے درپے تھیں خواہ وہ مشرکین مکہ ہوں یا یہود مدینہ، منافقین ہوں یا دیگر قبائل عرب اور یہ سب لوگ اسلام کو کچلنے کے لیے حتیٰ المقدور کوششیں بھی کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ تمہارا یا اسلام کا کچھ بھی بگاڑنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بس اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ دوسری بات جو آپ کو فی الواقعہ غمزدہ بنا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی کوششوں کے باوجود یہ لوگ اسلام کو سمجھنے اور اس کے قریب آنے یا اسے قبول کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تھے اور اس بات سے آپ سخت پریشان ہوجاتے تھے اور اس بات کا قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ جس کے جواب میں اللہ نے اپنے پیارے نبی کو یہی کہہ کر تسلی دی کہ تمہارا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اب اگر یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تو اس کا وبال انہیں پر ہوگا اور نہ ہی میرا پیغام پہنچا دینے سے آگے آپ کی کوئی ذمہ داری ہے۔