سورة ق - آیت 2

بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلکہ ان کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والاآیا، اس پر کافر کہنے لگے یہ ایک عجیب سی بات ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] ایسے شان والے قرآن کی جس بات یا جن باتوں پر قسم کھائی جارہی ہے وہ عبارت یہاں محذوف ہے۔ اور اسے مخاطبین یعنی کفار مکہ کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کفار مکہ کا سارا جھگڑا دو باتوں پر تھا۔ ایک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تھے۔ دوسرے آخرت کے منکر تھے۔ اور قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ قرآن کے دلائل اور اس کی داخلی شہادتیں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں باتیں درست ہیں۔ [٣] کفار کا پہلا اعتراض رسول انہیں میں سے کیوں ہے ؟ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صرف عرب ہی نہیں ساری دنیا میں فتنہ و فساد پھیلا ہوا تھا۔ اب تعجب کی بات تو یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان حالات میں انسانوں کی ہدایت کے لئے کوئی نبی یا ڈرانے والا نہ بھیجتا۔ جبکہ یہ لوگ اس بات پر متعجب ہیں کہ اللہ نے ڈرانے والا کیوں بھیج دیا ؟ دوسرا تعجب انہیں اس بات پر ہے کہ ڈرانے والا اگر آیا ہے تو کوئی غیر انسان یا فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟۔ اور تیسرا تعجب انہیں اس بات پر تھا کہ اگر ڈرانے والا انسان ہی آنا تھا تو انہی کے قبیلہ اور قوم میں سے اور عربی زبان جاننے والا کیوں آیا ہے کوئی چینی یا جاپانی یا انگریز کیوں نہیں آیا ؟ حالانکہ تعجب تو ایسی غیر معقول باتوں پر آنا چاہئے۔ جو کفار مکہ کر رہے ہیں۔