سورة الحجرات - آیت 14

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ جو عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو ان سے کہہ دو کہ تم ابھی تک ایمان نہیں لائے (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد کامل کا نام ہے جو تمہیں نصیب نہیں) ہاں البتہ یوں کہو کہ ہم نے اس دین کو مان لیا۔ اور اگر تم الہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کرو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا بیشک اللہ بڑا بخشنے والا بہت مہربان ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٣] بدوی منافق قبائل کا اسلام کیسا تھا ؟ یہ بدوی وہی لوگ تھے جو قبیلہ غفار، مزنیہ، جہینہ، اسلم اور اشجع سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے نفاق کی وجہ سے غزوہ حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے۔ تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے واپس آئے تو حیلے بہانے تراش کر اپنے لئے استغفار کی التجا کر رہے تھے۔ ان کا ذکر سورۃ احزاب کی آیت نمبر ١١ تا ١٦ میں گزر چکا ہے۔ یہ لوگ کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان تو ہوگئے تھے اور ارکان اسلام بھی بجا لاتے تھے۔ مگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ انہیں آسان اور میٹھا میٹھا اسلام تو گوارا تھا لیکن وہ اس کے لئے کوئی مالی یا جانی قربانی پیش کرنے یا مشکلات برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ اسلام اور ایمان میں فرق :۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز ہے۔ حدیث جبریل سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ جب جبریل علیہ السلام نے آپ سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں اور رسولوں کا یقین رکھے اور اس بات کا بھی کہ مر کر دوبارہ زندہ ہوناہے‘‘ اور جب جبریل نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تو صرف اللہ کی عبادت کرے اور اس کا شریک نہ بنائے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کا تعلق دل کے افعال سے ہے اور اسلام کا ظاہری اعمال سے۔ یہ ان میں فرق کا پہلو ہے اور مماثلت کا پہلو یہ ہے کہ اگر ارکان اسلام کو باقاعدہ اور خلوص نیت سے ادا کیا جائے تو اس سے ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایمان میں اضافہ سے ظاہری اعمال میں حسن پیدا ہوتا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے مؤید اور لازم و ملزوم بن جاتے ہیں۔ منافقوں میں کمی یہ ہوتی ہے کہ ان کے اعمال میں نہ خلوص ہوتا ہے اور نہ حسن عمل لہٰذا ان کا ایمان شہادتین کے اقرار سے آگے بڑھتا ہی نہیں یعنی ایمان یا یقین ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوتا۔ اسی بات کو اللہ نے ایمان نہ لانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ [٢٤] یعنی اب بھی اگر تم اپنا رویہ درست کرلو اور دل و جان سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے لگو تو اللہ تمہارے سابقہ اعمال کا اجر تمہیں دے دے گا۔ اس میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اور تمہاری سابقہ خطائیں بھی معاف فرما دے گا۔