سورة محمد - آیت 38

هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

سن رکھو تم وہ لوگ ہو کہ جب تم کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں سے بعض وہ ہیں کہ بخل کرتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی ہی ذات سے بخل کرتا ہے اللہ توغنی ہے اور تم اس کے محتاج ہو اگر تم روگردانی کی راہ اختیار کرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے قوم کولے آئے گا پھر وہ تم جیسے (بخیل اور نافرمان) نہ ہوں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٣] دوسروں سے مراد اہل فارس ہیں :۔ اللہ اگر تمہیں جہاد میں یا دوسرے نیکی کے کاموں پر خرچ کرنے کو کہتا ہے تو اس میں تمہارا فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی وہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں تو ایک ایک کا ہزار ہزار ملے گا اور اگر تم بخل کرو گے اور جہاد کی ضرورتوں پر خرچ نہ کرو گے تو اس کا سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ اور کافروں کے سامنے تمہیں ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔ اللہ کے نافرمان الگ بنو گے۔ اللہ کو اپنے لئے تمہارے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بے نیاز ہے اور محتاج تم ہی ہو۔ اور اگر تم جان و مال کے خرچ کرنے میں بخل کرنے سے کام لو گے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آئے گا جو جان اور مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں بخیل نہ ہوں گے۔ اللہ کو تو بہرحال اپنے دین کو سربلند کرنا ہے وہ اگر تمہارے ہاتھوں ہوجائے تو اسے اپنے لئے غنیمت سمجھو۔ اور دوسرے لوگوں سے مراد اہل فارس ہیں چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سلمان فارسی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان پر رکھ کر فرمایا : اگر ایمان ثریا پر ہوتا تب بھی ان لوگوں میں سے کئی وہاں تک پہنچ جاتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ جمعہ) اہل فارس کی شاندار دینی خدمات :۔ الحمدللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جہاد کے سلسلہ میں ایسی بے نظیر قربانیاں پیش کیں کہ ان کی جگہ کسی دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم اہل فارس نے اسلام میں داخل ہو کر علم و ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی لاجواب دینی خدمات سرانجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق یہی لوگ تھے۔ جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پُر کرسکتے تھے۔ نامور محدثین اور ائمہ فقہا کی اکثریت اسی علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔