سورة محمد - آیت 16

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اوران میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جو اہل علم ہیں (ازراہ تمسخر) پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگادی اور یہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیروبنے ہوئے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٩] یعنی منافقین آپ کی مجلس میں آتے تو آپ کی باتوں کو اس لیے کان لگا کر سنتے تھے کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے نبی کی اس تعلیم کو مشکوک بنایا جاسکے۔ پھر وہ یہی باتیں جاکر بعض علمائے یہود یا بعض مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی اس نبی نے کیا بات کہی تھی اور اس سے ان کا مقصد یہ ہرگز نہ ہوتا تھا کہ وہ اس سے ہدایت حاصل کریں بلکہ یہ کہ دوسروں کو بھی شک و شبہ میں ڈال دیں۔ یا خود آپ کے ارشادات کا وہ مفہوم لیتے تھے جو آپ کا مقصود نہیں ہوتا تھا۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے کاموں پر کسی طرح کی پابندی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ جب کسی کی یہ حالت ہوجائے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور کوئی بھی ہدایت کی بات اس کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوتی۔