سورة الجاثية - آیت 22

وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بے کار وعبث نہیں بنایا بلکہ حکمت ومصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلہ پالے اور ایسا نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢] آخرت پر دوسری عقلی دلیل' اللہ کی حکمتیں اور ان کا تقاضا ' کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی گئی :۔ یہ معاد یا عالم آخرت کے قیام پر دوسری دلیل ہے اور یہ اللہ کی صفت حکیم ہونے کے تقاضا کے مطابق ہے۔ یعنی اللہ کا کوئی کام بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ پھر کیا یہ سارا کارخانہ کائنات حکمت سے خالی ہوسکتا ہے۔ جس کی ایک ایک چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور انسان ہر چیز سے فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ اب اگر انسان اچھے یا برے اعمال، جیسے بھی اس سے بن پڑیں اس دنیا میں کرکے مر جاتا ہے اور اس سے کچھ بھی مؤاخذہ نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کو پیدا کرنا، پھر اس کائنات کی چیزوں سے انسان کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ دینا سب کچھ بے سود، عبث اور ایک بے نتیجہ کھیل تھا۔ اور ایسا کام کرنا اللہ کی حکمت کے سراسر منافی ہے۔ لہٰذا لازمی ہے کہ اس دنیا کا نتیجہ ایک دوسرے عالم کی صورت میں نکلے جس میں ہر طرح کے انسانوں کا پورا پورامحاسبہ کیا جائے۔