وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
اور اللہ نے یقینا اس وقت اپنا وعدہ پورا کردیا تھا جب تم دشمنوں کو اسی کے حکم سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور حکم کے بارے میں باہم اختلاف کیا اور جب اللہ نے تمہاری پسندیدہ چیز تمہیں دکھائی تو تم نے ( اپنے امیر کا) کہنا نہیں مانا (٤٩) تم میں سے کچھ لوگ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے، اور کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے۔ پھر اللہ نے ان سے تمہارا رخ پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ البتہ اب وہ تمہیں معاف کرچکا ہے، اور اللہ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔
[١٣٩] شکست کی وجہ :۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن آپ نے پچاس پیدل آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور تاکید کی کہ تم اپنی جگہ سے نہ سرکنا۔ خواہ تم یہ دیکھو کہ پرندے ہم کو اچک لے جائیں جب تک میں تمہیں کہلا نہ بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دی ہے اور اسے کچل ڈالا ہے تب بھی تم یہاں سے نہ ہلنا جب تک میں کہلا نہ بھیجوں۔ ابتداء میں مسلمانوں نے کافروں کو مار بھگایا۔ میں نے خود مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا: ’’اب غنیمت کا مال اڑاؤ، تمہارے ساتھی تو غالب آچکے۔ اب کیا دیکھ رہے ہو۔‘‘ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’کیا تم وہ بات بھول گئے جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہی تھی؟‘‘ وہ کہنے لگے واللہ ! ہم تو لوگوں کے پاس جاکر غنیمت کا مال اڑائیں گے، جب وہ (درہ چھوڑ کر) لوگوں کے پاس آگئے تو (پیچھے سے خالد بن ولید نے حملہ کردیا) اور کافروں نے مسلمانوں کے منہ پھیر دیئے اور شکست کھا کر بھاگنے لگے اور اللہ کا رسول انہیں پیچھے سے بلا رہا تھا۔ اس وقت آپ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا تھا اور کافروں نے ہمارے ستر آدمی شہید کئے جبکہ بدر کے دن مسلمانوں نے ایک سو چالیس کافروں کا نقصان کیا تھا۔ ستر کو قید کیا تھا اور ستر کو قتل کیا تھا۔ خاتمہ جنگ کےبعد ابوسفیان کا نعرہ اور سوال وجواب:۔ اس وقت ابو سفیان نے تین بار یہ آواز دی کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں (زندہ) موجود ہیں؟ مگر آپ نے صحابہ کو جواب دینے سے منع کردیا۔ پھر اس نے تین بار آواز دی:کہا ابو قحافہ کے بیٹے موجود ہیں؟ پھر تین بار پکارا: کیا خطاب کے بیٹے موجود ہیں؟ پھر اپنے ساتھیوں سے متوجہ ہو کر کہنے لگا : یہ تو سب قتل ہوچکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رہ نہ سکے اور اسے کہا : اللہ کے دشمن! جھوٹ کہتے ہو۔ جن کے تم نے نام لیے ہیں سب کے سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ اس وقت ابو سفیان کہنے لگا : اچھا آج بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا اور لڑائی تو ڈولوں کی طرح ہوتی ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم اپنے مقتولین میں مثلہ کیا ہوا دیکھو گے جس کا میں نے حکم نہیں دیا تھا۔ تاہم اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ پھر اس نے دو مرتبہ ’ہبل کی جے‘ کا نعرہ لگایا تو آپ نے صحابہ سے کہا اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے پوچھا ’یارسول اللہ! کیا جواب دیں؟‘ فرمایا : کہو ’’اللہ ہی سب سے برتر اور بزرگ ہے۔‘‘ پھر ابوسفیان نے پکارا : ہمارا تو عزیٰ بھی ہے جو تمہارا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ’’اسے جواب کیوں نہیں دیتے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا : یوں کہو : ’’ہمارا تو کارساز اللہ ہے۔ لیکن تمہارا کوئی کارساز نہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب دواء الجرح باحراق الحصیر و غسل المراۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کا علاج ۲ ۔ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ کو غزوہ احد میں جو زخم لگا اس کا یہ علاج کیا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لارہے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے منہ سے خون دھو رہی تھیں اور ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ آپ کے زخم میں بھر دی گئی۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب ایضاً) [١٤٠]بلآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا:۔ اس جنگ میں ابتداًء مسلمانوں کو کامل فتح نصیب ہوئی اور اللہ نے اپنا وعدہ نصرت پورا فرمایا۔ پھر عبداللہ بن جبیررضی اللہ عنہ کے ہمراہیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صریح نافرمانی کی۔ جس کی پاداش میں مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا یہ قصور معاف کردیا جس کے نتیجہ میں یہ جنگ برابری کی سطح پر منتج ہوئی۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کے تعاقب میں جو دستہ بھیجا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا اور یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کی نافرمانی کے جرم کو معاف کردیا تھا اور اگر قصور معاف نہ کیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ مشرکین مکہ میدان احد کو سر کرنے کے بعد مدینہ کا رخ کرتے اور مسلمانوں کے بیوی بچوں کو قتل کردیتے یا قید کرلیتے یا لونڈی غلام بنالیتے۔ یہ اللہ کا فضل اور اس کی معافی ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی ذلت سے بچا لیا ورنہ جو ذلت میدان بدر میں مشرکین مکہ کی ہوئی تھی یہ ذلت اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی۔