وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ
اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یاوہ؟ وہ مثال محض آپ کے سامنے کج بحثی کی غرض سے لائے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ سخت جھگڑا لو واقع ہوئے ہیں (٥)۔
[٥٦] مشرکین مکہ نے غل یہ مچایا تھا کہ اللہ کے سوا سارے ہی معبود جہنم کا ایندھن بنیں گے تو پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہمارے معبودوں سے اچھے کیسے ہوئے اور ہمارے معبود ان سے کمتر کیسے ہوئے؟ پھر تو ہم اپنے ہی معبودوں کو اچھا کہیں گے۔ [٥٧] یعنی مشرکین ایسی بحث اس لیے نہیں چھیڑتے کہ اگر انہیں معقول جواب مل جائے تو اسے تسلیم کرلیں گے۔ بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ ایسی کج بحثی ان کی فطرت میں داخل ہوچکی ہے۔ اور وہ حق بات کو کج بحثیوں میں الجھا کر لوگوں کو حق کے قریب آنے سے روکنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔