وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
ان کے منہ سے جو بات نکلی وہ اس کے سوا نہیں تھی کہ وہ کہہ رہے تھے : ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بھی اور ہم سے اپنے کاموں میں جو زیادتی ہوئی ہو اس کو بھی معاف فرمادے، ہمیں ثابت قدمی بخش دے، اور کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرمادے۔
[١٣٥] یعنی اہل ایمان کا بھروسہ محض سامان جنگ اور قوت کار یا اپنی کارکردگی پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ساتھ ساتھ وہ میدان جنگ میں بھی اللہ کو یاد رکھتے، اس سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے اور اپنی ثابت قدمی اور دشمن پر غالب آنے کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ میدان بدر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری رات اللہ کے حضور دشمن پر فتح و نصرت کی دعا میں گزاری تھی۔ ایسی ہی دعا طالوت کے لشکر نے بھی کی تھی جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٠ میں آیا ہے۔