سورة آل عمران - آیت 144

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣١]میدان احد کےمعرکہ کےحالات:۔ جب حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھی درہ چھوڑ کر لوٹ مار میں لگ گئے تو خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کے ایک دستہ کی کمان کر رہے تھے) پہاڑی کا چکر کاٹ کر اسی درہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ سو سوار ان کے ہمراہ تھے۔ ادھر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ دس بارہ تیر انداز بھلا سو سواروں کی یلغار کو کیسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے مقابلہ تو بڑی بے جگری سے کیا مگر سب شہید ہوگئے۔ مسلمان مجاہدین اپنے عقب یعنی درہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ اچانک مشرکین کا یہ رسالہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکوں کی جو فوج بھاگ کھڑی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے پلٹ آئی اور مسلمان دونوں طرف سے گھر گئے۔ بہت زور کا رن پڑا اور بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ عارضی شکست کا سبب اور رسول اللہ کی وفات کی افواہ پر مسلمانوں کی بے قراری:۔ اسی دوران ابن قیہ نے ایک بھاری پتھر آپ پر پھینکا جس سے آپ کا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا۔ اس ضرب کی شدت سے آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور ابن قمیئہ یا کسی اور نے دور سے پکارا ’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے‘ یہ سنتے ہی مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان جنگ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ اب لڑنے کا کیا فائدہ ہے اور بعض کمزور دل مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ جاکر مشرکوں کے سردار ابو سفیان سے امان حاصل کرلیں اور اس بدحواسی کے عالم میں بعض یہ بھی سوچنے لگے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہوگئے تو ہمیں اپنے پہلے دین میں واپس چلے جانا چاہئے۔ یہی وہ وقت تھا جب منافقوں نے یوں زبان درازی شروع کردی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر اللہ کے رسول ہوتے تو مارے نہ جاتے۔ اس وقت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہوگئے تو رب محمد قتل نہیں ہوئے۔ آپ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ؟ جس بات پر آپ نے جان دی ہے اسی پر تم بھی اپنی جان دے دو اور کٹ مرو۔ یہ کہہ کر آپ کافروں میں گھس گئے اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے آخر شہید ہوگئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوش آگیا تو آپ نے آواز دی 'الی عباد اللہ انا رسول اللہ ' (اللہ کے بندو! ادھر آؤ میں اللہ کا رسول ہوں) اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آپ کو پہچان کر چلائے۔ مسلمانو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں موجود ہیں۔ چنانچہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تیس کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے قریب ہو کر دفاع کیا اور مشرکوں کی فوج کو منتشر کردیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہما نے نہایت جانبازی اور جانثاری کا نمونہ پیش کیا۔ اس موقع سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر اللہ تو نہیں جو حی و قیوم ہوں، ایک رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے سب رسول دنیا سے رخصت ہوچکے پھر آگر آپ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اسلام چھوڑ دو گے؟۔ دین کی حفاظت اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کردو گے؟ تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ کاتو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر سیدنا ابوبکر کاخطبہ :َ واضح رہے کہ اس آیت کے نزول کے ساڑھے سات سال بعد جب فی الواقعہ آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کیا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ .....الشّٰکِرِیْنَ﴾ تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گرگیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی) پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ یہ آیت غزوہ احد کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے سینکڑوں بار پڑھا بھی ہوگا۔ لیکن اس آیت کی صحیح سمجھ انہیں اس وقت آئی جب فی الواقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ اس سے پہلے نہیں آئی اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ﴾ کا۔ نیز اس سے لفظ تاویل کا صحیح مفہوم بھی سمجھا سکتا ہے۔ سیدنا ابوبکر کا مرتدین سے جہاد:۔ پھر جس وقت میدان احد میں بعض کمزور ایمان والوں نے سوچا کہ اسلام کو چھوڑ کر پہلے دین میں چلے جائیں، اسی طرح آپ کی وفات پر واقعی کئی عرب قبائل مرتد ہوگئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دین اسلام کی ساری سربلندیاں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ پھر جب آپ نہ رہے تو اسلام از خود مٹ جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے مرتدین سے جہاد کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ ان میں سے کچھ مارے گئے اور باقی پھر سے دین اسلام پر قائم ہوگئے۔ گویا ان لوگوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ اسلام اللہ کے فضل سے سربلند رہا۔