فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ
اگر اس طرح سمجھادینے پر بھی یہ لوگ روگردانی کریں تو (اے پیغمبر) ہم نے کچھ تم کو ان پرداروغہ بناکرتوبھیجا نہیں تمہارے لیے تو بس حکم الٰہی کا پہنچادینا ہی ہے (ماننا نہ ماننا سننے والوں کا کام ہے) اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھادیتے ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے اور اگر اس کے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو (ناشکری کرنے لگتے ہیں) بے شک انسان ہی بڑاناسپاس ہے
[٦٨] ] یعنی ہم نے آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ انہیں راہ راست پر لاکے چھوڑو۔ نہ ہی آپ سے ایسی باز پرس ہوگی۔ [٦٩] ایک دنیا دار انسان کسی حال میں بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا :۔ دراصل ایسی آیات کے مخاطب قریش مکہ ہی تھے۔ لیکن قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ مخاطب کی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے براہ راست انہیں مخاطب نہیں کرتا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے اور نہ چڑ جائیں۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں ایک عام دنیادار انسان کی فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب اس پر بھلے دن آتے ہیں تو اترانے لگتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اور جب برے دن آتے ہیں اور یہ برے دن بھی ان کی اپنی شامت اعمال سے آتے ہیں تو اس وقت وہ اپنے پروردگار کو کو سنے لگتا ہے اور اللہ کے ان سارے انعامات کو بھول جاتا ہے جو اس نے اسے خوشحالی کے دور میں عطا کئے ہوئے تھے اس طرح نہ خوشحالی اس کی اصلاح میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی بدحالی اسے راہ راست پر لا سکتی ہے کسی حال میں بھی ان کی طبیعت اللہ کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔