وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ
اور وہی خدا تو ہے کہ جب وہ خشک موسم میں لوگ بارش کی طرف سے بالکل ناامید اور مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی رحمت سے بادلوں کو پھیلا دیتا ہے اور مینہ برسنا شروع ہوجاتا ہے وہی کارساز حقیقی سزاوار حمد وتقدیس ہے (١٠)۔
[٤٢] بارش اور مصنوعی آبپاشی کا تقابل :۔ زمین کو سیراب کرنے کا کام اگرچہ مصنوعی طریقوں سے یعنی کنوئیں، چشمے، نہر یا ٹیوب ویل کے پانی سے بھی چلا لیا جاتا ہے مگر ایک تو اس پر محنت اور خرچ بہت اٹھتا ہے دوسرے اس کے خوشگوار اثرات بارش کی نسبت بہت کمتر ہوتے ہیں۔ مصنوعی طریق آبپاشی کو اللہ کی رحمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ کی رحمت بارش ہے اور یہ ایک نہیں بے شمار نعمتوں جیسی نعمت ہے۔ پہلے راحت بخش اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ جو انسان کو فطری سرور بخشتی ہیں اور اس کی مایوسی کو دور کرتی ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو اس سے موسم میں خوشگوار تغیر آجاتا ہے۔ درختوں پر سے گردوغبار دھل جاتا ہے۔ مصنوعی آبپاشی کی طرح بارش کسی مخصوص قطعہ زمین میں نہیں ہوتی بلکہ وسیع رقبہ میں ہوتی ہے۔ جس سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق فیض یاب ہوتی ہے۔ پھر اس پر نہ کچھ لاگت آتی ہے نہ محنت صرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بھی پانی کے سب ذخیرے بارش ہی کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذا دراصل بارش ہی وہ اصل نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اور ولی کا لفظ یہاں یہی معنی دے رہا ہے۔ اور حمید اس لحاظ سے کہ تمام مخلوق اس کی رحمت سے فیض یاب ہو کر اس کے گن گانے لگتی ہے۔