سورة غافر - آیت 67

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ پروردگار جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم کو طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکالتا ہے پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی ان منزلوں سے پہلے مرجاتا ہے اور (کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے اور تاکہ تم عقل وفکر سے کام لو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٠] انسان کی تخلیق اور زندگی کے مختلف مراحل سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کے بے جان ذروں سے تمہارے لئے خوراک پیدا کی۔ اسی بے جان خوراک سے کئی مراحل طے کرنے کے بعد تمہارے اندر منی پیدا ہوئی اور اطباء کے قول کے مطابق منی چوتھے ہضم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر اسی منی کا قطرہ جب ماں کے رحم میں داخل ہوتا ہے اور اسے رحم مادر قبول کرلیتا ہے تو اس پر کئی ادوار آتے ہیں بعد میں اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اور ایک مقررہ مدت کے بعد خوبصورت شکل اور محیرالعقول صلاحیتیں لے کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ چل سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں وہ قوتیں نشوونما پانے لگتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔ انسان کے بڑھنے کے ساتھ اس کی عقل، اس کا فہم، اس کی جسمانی قوت، اس کا قد وقامت غرض ہر چیز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس پر بڑھاپے کا وقت آتا ہے تو پہلے جیسی غذائیں کھانے کے باوجود قد بڑھنا رک جاتا ہے اور دوسری قوتوں میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اور آخری مرحلہ موت ہے۔ جو کبھی تو بچپن میں ہی آجاتی ہے، کبھی اسقاط ہوجاتا ہے کبھی جوانی میں انسان مرتا ہے اور کبھی بوڑھا کھوسٹ ہونے کے باوجود بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے مگر اسے موت نہیں آتی۔ ذرا سوچو! ان مراحل میں سے کوئی مرحلہ بھی تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ پھر اگر بعث بعد الموت کا ایک اور مرحلہ تم پر گزر جائے تو تم اسے کیسے محال سمجھتے ہو؟ موت سے متعلق چند اٹل حقائق :۔ پھر موت ایک ایسا اضطراری امر اور اٹل حقیقت ہے جو اپنے اندر کئی تلخ حقائق سمیٹے ہوئے ہے۔ کوئی فقیر، کوئی امیر، کوئی بادشاہ اس کی گرفت سے نہ آج تک بچ سکا ہے نہ آئندہ بچ سکے گا۔ پھر اس کا جو وقت مقرر ہے وہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ بعض دفعہ انسان بے شمار حوادث سے بچ نکلتا ہے اور موت کے منہ سے بچا رہتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک معمولی سا حادثہ اس کا جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے۔ کوئی بادشاہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتال سے داخل ہو کر اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود موت کے وقت کو آگے پیچھے نہیں کرسکتا۔ اور اس میں جو ایک مرد مومن اور صاحب عقل کے لئے سبق ہے وہ یہ ہے کہ دشمن اسلام طاقتیں جتنا بھی زور لگا لیں، جتنی بھی سازشیں تیار کرلیں کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آئے۔ سیدنا خالد بن ولید تقریباً ایک سو جہاد کے معرکوں میں شریک ہوئے لیکن موت آئی تو بستر مرگ پر گھر میں ہی آئی۔ یہ عقیدہ ایک مجاہد میں بے پناہ جرأت پیدا کردیتا ہے۔ پھر اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ایک خطہ زمین جس میں ایک ہی قسم کا بیج ڈالا جائے۔ سیراب ایک ہی طرح کے پانی سے ہو، موسم اور آب و ہوا ایک جیسی ہو۔ نگہداشت ایک جیسی ہو اس خطہ زمین کے سارے پودے تقریباً ایک ہی جیسی پرورش اور زندگی پاتے ہیں۔ مگر ایک ہی والدین کے چھ بچے جن کی خوراک ایک، آب و ہوا ایک، گھر ایک ماں باپ ایک، لیکن عمریں سب کی جدا جدا ہوتی ہیں کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی جوانی میں اور کوئی اتنا بوڑھا اور ذلیل ہوجاتا ہے کہ وہ خود چاہتا ہے کہ اللہ اسے دنیا سے اٹھا لے مگر اسے موت نہیں آتی۔ کیا یہ سب باتیں اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتیں کہ کوئی قادر مطلق ہستی ہماری موت و حیات پر حکمران ہے۔ کسی دیوتا، کسی پیر، پیغمبر، کسی ستارے اور آستانے والے کا اس میں کچھ دخل نہیں یا کم از کم حکیم اور ڈاکٹر خود تو نہ مرتے۔ ہر کسی کی بے بسی ایک جیسی ہے تو ایسے بے بسوں کو عبادت کا مستحق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی تسلیم کرلیتے ہیں۔